وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اپنی 17 دسمبر کی پریس کانفرنس میں پیپلز پرٹی کے 26 سالہ ” عاقل و بالغ“ چیئرمین بلاول جی کو کئی بار ” بچہ “ کہا اور یہ بھی کہا کہ ” وہ بچہ ہر کسی کی تضحِیک کرتا ہے اور جو کوئی اُس کے مُنہ میں ڈال دیتا ہے وہ کہہ دیتا ہے“۔جواب میں بلاول جی نے کہا کہ ”ہاں! مَیں بچہ ہُوں لیکن شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا بچہ ۔ حُکمران مجھ سے ڈریں!“ یہ سوچ کر شاید حُکمران ” بلاول بھبکی“ میں نہ آئیں ۔ اُنہوں نے دوسرے دِن (18 دسمبر کو ) محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب آصف علی زرداری کی شادی کی 29 ویں سالگرہ کے دِن حُکمرانوں کو مزید ڈرایا کہ ” میرے بابا سائیں زرداری جی 23 دسمبر کو وطن واپس آ رہے ہیں “۔ میڈیاپر بتایا گیا ہے کہ ” جنابِ زرداری 27 دسمبر کو محترمہ کی برسی میں شریک ہونے کے لئے تشریف لا رہے ہیں “۔
کیا جنابِ زرداری کی واپسی پر حُکمران اُن سے ڈر جائیں گے؟۔ زرداری جی بلاول جی کی طرح “چہرے کی خوبصورتی” نہیں رکھتے لیکن اُن کی شکل ہر گز ڈراﺅنی نہیں ہے ۔ البتہ اُن کی مُسکراہٹ دلفریب ہے، خاص طور پر کسی سے کام نکلوانے کے لئے ۔ 6 جون 2015ءکو اسلام آباد کی ایک تقریب سے خطاب کر تے ہُوئے زرداری جی نے ایک ڈراﺅنی بات ضرور کی تھی جب کہا کہ ” مَیں جرنیلوں کی اِینٹ سے اِینٹ بجا دوں گا“۔ اُن دنوں جنرل راحیل شریف آرمی چیف تھے ۔ وہ اور اُن سے جونیئر دوسرے جنرلز بھی زرداری جی سے نہیں ڈرے ۔ مجھے خواب میں میرے دوست بابا ٹلّ نے بتایا کہ ” جناب زرداری کو اِینٹ سے اِینٹ بجانے کا فن آتا ہی نہیں ۔ جناب زرداری اپنے والدِ مرحوم جناب حاکم علی زرداری کے “بچے” سینما میں چیف ایگزیکٹو تھے اور اُن دِنوں سینما میں کلاسیکل موسیقاروں کی فلمیں بھی دکھائی جاتی تھیں لیکن کسی بھی فلم میں اِینٹ سے اِینٹ بجانے کا سِین نہیں دکھایا گیا“۔
24 جون 2015ءکو جنابِ زداری دُبئی چلے گئے ۔ وہاں اُنہوں نے اپنے محل میں قیام کِیا۔ دُبئی سے لندن ۔ نیویارک اور پھر دُبئی ۔ وہاں بیٹھ کر سندھ حکومت چلاتے رہے اور پارٹی کے عام اجلاس کی صدارت بھی کرتے رہے۔ پارٹی کے اہم ارکان اپنے خرچ / سندھ حکومت کے خرچ پر ۔ دُبئی جا کر اپنے مُرشد کا دِیدار کرتے رہے اور حضرت سُلطان باہوؒ کے اِس فلسفے کو داد دیتے رہے کہ ….
” مُرشد دا دیدار اے باہو
جیویں لکّھ کروڑاں حجّاں ہُو!“
جب زرداری صاحب کا طیّارہ کراچی ائر پورٹ پر اُترے گا تو اُن کے چاہنے والے خوشی کے شادیانے کیوں نہیں بجائیں گے؟لیکن اُس کے ساتھ ہی آپس میں ایک دوسرے سے ضرور پوچھیں گے کہ ”کیا ڈیڑھ سال بعد وطن واپس آنے والے ہمارے سائِیں زرداری جرنیلوں کی اِینٹ سے اِینٹ بجانے کے لئے تشریف لائے ہیں ؟ ۔بلاول جی نے اپنی ”بھبکی “ میں یہ بھی کہا کہ ” ڈاکٹروں کے مشورے سے بابا سائِیں کی وطن واپسی کے بعد اگر حُکمرانوں نے میرے 4 مطالبات تسلیم نہ کئے تو اُن کے خلاف تحریک چلے گی!“ کیا ہی اچھا ہو کہ بلاول جی حُکمرانوں کو یہ رعایت بھی دے دیتے کہ ” اگر حکمرانوں نے میرے 4 مطالبات تسلیم کرلئے تو بابا سائِیں پھر دُبئی جا کر حسبِ سابق ” کاروبارِ سیاست“ کریںگے !“۔
ابھی واضح نہیں کہ” جنابِ زرداری کی پہلی ترجیح کیا ہوگی!۔ وہ حکمرانوں سے مذاکرات کرنے اُن سے بلاول جی کے 4 نکات تسلیم کرائیں گے؟ یا سب سے پہلے جرنیلوں کی اینٹ سے اینٹ بجائیں گے؟۔ میرے دوست ” شاعرِ سیاست“ نہ جانے کیوں اچانک جنابِ آصف زرداری کے آنے کی خبر سے ”جیالوں کی طرح “ خوش ہو رہے ہیں ۔ اُنہوں نے سندھ کے نامور درویش سخی لال قلندرؒ کی یاد میں ” ہو لال نی!“ کی دُھن پر جنابِ زرداری کے استقبال پر رقص کرنےوالے جیالوں کی طرف سے کہا کہ ….
بلاول جی فرمایا، ہو لال نی
ساڈا حوصلہ ودھایا ، ہو لال نی
ویلا خُوشیاں دا آیا ، ہو لال نی
زرداری سائِیں آیا ، ہو لال نی
بلاول ہاﺅس وِچّ، مجلس روز سجّے گی
جرنیلاں دی، اِٹ نال اِٹّ وجّے گی
اِٹّاں سونے دِیاں لیایا، ہو لال نی
زرداری سائِیں آیا ، ہو لال نی“
….O….
برطانیہ کے ”غیر تحریری آئین “ کی طرح میرا اور ” شاعرِ سیاست“ کا ” غیر تحریری معاہدہ“ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی نالائقیوں پر پردہ ڈالتے رہیں گے ۔ اِینٹ سے اِینٹ بجانے کی ضرب اُلمِثل ” سونے کی اِینٹوں“ کے لئے نہیں ہے ۔ بلاول جی نے یہ نہیں بتایا کہ ” اُن کے بابا سائِیں کے پِیر گوجرانوالہ کے پِیر محمد اعجاز شاہ بھی اپنے مُریدِ خاص کے ہمراہ ہوں گے یا کراچی ائیر پورٹ پر اُنہیں اپنی دُعاﺅں کا تبرّک دیں گے ؟۔ صِرف ایک بار ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کے بسائے ہُوئے ” ڈیرے“ ( ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور) میں سیکرٹری ” نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ سیّد شاہد رشید کے کمرے میں میری پیر اعجاز شاہ سے ملاقات ہُوئی تھی۔ مَیں نے دیکھا کہ ” پیر اعجاز شاہ اور سیّد شاہد رشید ایک دوسرے کو اپنا مُرید بنانے میں ناکام رہے تھے “۔
مجھے یاد آیا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے 7 سال بعد اور جلا وطنی ترک کر کے محترمہ بے نظیر بھٹو امریکہ کی آشِیر واد اور پاکستان کے مقتدر طبقوں کی اجازت سے صدر جنرل ضیاءاُلحق کی زندگی میں ہی جب 10 اپریل 1986ءکو لاہور کے ہوائی اڈے پر اُتریں تو اُن کے استقبال کے لئے بھٹو صاحب کے چاہنے والوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہُوا سمندر تھا ۔ حالانکہ اُن دِنوں لاہور میں اُن کے کسی بھائی کا ”بم پروف ہاﺅس“ بھی نہیں تھا۔ 17 اگست 1988ءکو صدر جنرل ضیاءاُلحق ہوائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے پاپا کی شہادت کیش کرا کے دوبار وزیراعظم منتخب ہُوئیں ۔بعد ازاں اُسی فارمولے کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد جنابِ زرداری صدر پاکستان منتخب ہوگئے ۔
11 مئی 2013ءکے عام انتخابات سے پہلے دو عہدے رکھنے پر توہینِ عدالت کیس میں لاہور ہائیکورٹ کے حُکم سے جناب آصف زرداری نے شریک چیئرپرسن پیپلز پارٹی کا عہدہ چھوڑ دِیا تھا اور انتخابی مہم کے دَوران ایوانِ صدر میں ہی محصور رہے۔ بلاول جی کو دہشت گردوں کی طرف سے جان کا خطرہ تھا ۔ وہ کسی جلسہ¿ عام سے خطاب نہیں کر سکے ۔ وہ ویڈیو لِنک پر قوم سے خطاب کرتے ہُوئے بھٹو خاندان کی ” شہادتوں کی داستانیں “ بیان کرتے تھے لیکن بات نہیں بنی۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے آثار قدیمہ تو تھے اور ” بم پروف بلاول ہاﺅس“ بھی لیکن پیپلز پارٹی کا صفایا ہوگیا۔ مسلم لیگ ن کو بھاری مینڈیٹ مِل گیا اور ووٹوں کے لحاظ سے پاکستان تحریکِ انصاف دوسرے نمبر تھی۔
2018ءمیں اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریکِ انصاف میں ہوگا۔ مسلم لیگ ن کو اُس وقت فائدہ ہوگا جب وزیراعظم نواز شریف پانامہ لِیکس پر قومی اسمبلی میں سیاسی تقریروں کے ذریعے نہیں بلکہ سپریم کورٹ میں مطلوبہ دستاویزات کی بنیاد پر بری ہو جائیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ ” جنابِ زرداری کِس کے آسرے پر وطن واپس تشریف لارہے ہیں ۔ کیا باہر جائیں گے یا اندر ہی رہیں گے ؟