تحریر : واٹسن سلیم گل،ایمسٹرڈیم
ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ کئ سالوں سے بل گیٹس دینا کے امیر ترین لوگوں میں سرفہرست ہے۔ دوسری وجہ شہرت اس شخص کی یہ ہے کہ اس نے 30 ارب ڈالر کی خطیر رقم انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر کہ ایک ریکارڈ قائم کیا۔ مگر جب اس نے اتنی بڑی رقم خدمت خلق کے لئے وقف کی تب بھی اس کے پاس 50 ارب ڈالر زاتی اکاؤنٹ میں موجود تھے۔ جن میں آج پھر اضافہ ہو چکا ہے۔
عبدلستار ایدھی بل گیٹس سے زیادہ امیر اس لئے تھا کہ اس نے نہ صرف اپنی ساری دولت، 24 سو کے لگھ بھگ ایمبولینسس، تین ائر ایمبولینسس، تین سو ایدھی سینٹرز، آٹھ ہسپتال خدمت خلق کے لئے وقف کئے بلکہ اپنی پوری زندگی، اپنی سوشل لائف، اپنا سکون، اپنا آرام، اپنی بیوی بچے سب کچھ خدمت خلق کے لئے قربان کر دیا اور جاتے جاتے بھی اپنی آنکھیں انسانیت کی خدمت پر نچھاور کر دیں۔ بدلے میں کفن لینا بھی گوارہ نہ کیا اور اپنے پرانے کپڑوں میں گور میں اتارا گیا۔ یہ شخص سخاوت میں حاطم تائ کو بھی پیچھے چھوڑ گیا۔
آج اگر حاطم تائ بھی زندہ ہوتا تو ایدھی کے ہاتھ پر بعیت کر لیتا۔ مسیح ابن مریم نے اپنے شاگردوں کو ایک تمثیل سُنائ کہ کچھ لوگ ہیکل سلیمانی کے لئے چندہ جمح کر رہے تھے ہر شخص اپنی حثیت کے مطابق دے رہا تھا۔ مگر ایک غریب بیوا نے دو سکے چندے میں ڈالے جس پر مسیح ابن مریم نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ اس عورت نے سب سے زیادہ چندہ دیا۔ کیونکہ ہر شخص نے اپنی دولت کا کچھ حصہ دیا مگر اس بیوا کی دولت ہی یہ دو سکے تھے جو اس نے چندے میں دے دیے۔ (بحوالہ مرقس 12)۔ ہمارے ملک میں یہ ریت بن چکی ہے کہ ہم عظیم شخصیات کے دنیا سے جانے کہ بعد ان کی جے جے کار کرتے ہیں۔ کچھ پاکستانی چند سال سے یہ کوشش کر رہے تھے کہ ایدھی صاحب کو دنیا کا سب سے معتبر ایوارڈ امن کا نوبل پرائیز ملنا چاہئے، اس کے لئے آن لائن پٹیشنزپر بھی دستخطی مہم چلائ گئ۔ سوشل میڈیا پر بھی اس مہم کو زندہ رکھا گیا۔
حکومت کی توجہ حاصل کرنے کے لئے اخبارات میں کالم، رپورٹس اور خبریں بھی شایع کی گئ مگر حکومت کی جانب سے اس پر توجہ نہی دی گئ۔اس سلسلے میں میرا اپنا کالم جو 11 سپتمبر 2015 کو جنگ لندن میں شایع یوا تھا۔ وہ تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔ کیونکہ 1974 سے نوبل پرائیز کی کمیٹی کے مطابق مرنے کے بعد کسی کو بھی یہ انعام نہی مل سکے گا۔ اس میں کوئ شک نہی ہے کہ نوبل پرائیز کی ایدھی صاحب کی خدمات کے سامنے کوئ حثیت نہی ہے مگر اگر یہ پرائیز مل جاتا تو عبدل ستار ایدھی کو دنیا میں جو نہی بھی جانتا تھا وہ بھی جان لیتا کہ پاکستان میں صرف دہشتگرد اور بنیاد پرست ہی نہی رہتے بلکہ ایدھی جیسے لوگ بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ جس کی مثال مجھے دنیا میں کم از کم اس صدی میں تو نظر نہی آتی۔
دنیا میں بہت سے لوگ انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں مگر کہیں نہ کہیں آپ کو ان کی زندگی میں گیو اینڈ ٹیک (دو اور لو) کا اصول نظر آئے گا۔ وہ عالیشان دفاتر میں بیٹھ کر نئے دور کی نئ ٹیکنولوجی کے زریعے یہ خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ اور میرے نزدیک یہ کوئ غلط بات بھی نہی ہے۔ کیونکہ اگر آپ سکون اور آرام سے ہونگے تو اپنی زمہ داری اور بہتر انداز میں ادا کر سکتے ہیں۔ مگر ایدھی صاحب سے زیادہ پرسکون میں نے کسی کو بھی نہی دیکھا۔ جو اپنے بدن پر ایک عام سی پوشاک پہنے روڈ پر کھڑا ہو کر بھیک مانگتا ہے۔ پھر ایک عام سی چارپائ پر اپنی شریک حیات محترمہ بلقیس ایدھی کے ساتھ بیٹھ کر چائینز اور انٹرکونٹینینٹل فوڈ کے بجائے وہی دال چاول کھاتا تھا۔ اس نے کبھی اپنی خدمات کو کیش نہی کروایا۔ لوگ ایک اسکول یا ہسپتال بنا کر پوری قوم کو اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
عالی شان زندگی گزارتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیاں اور سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ چلتے ہیں۔ اپنے اچھے کاموں کے بدلے ووٹ بھی لیتے ہیں اور عزت اور شہرت بھی۔ مگر ایدھی صاحب نے کچھ بھی کچھ نہ لیا۔ ایثار اور قربانی کے جزبے سے سرشار ایدھی اس دنیا سے چلا گیا۔ ان کی علالت اور پھر ان کے جنازے کو بھی لوگ کیش کرواتے رہے۔ ان سے ہسپتال میں ملاقات اور پھر اس ملاقات کی میڈیا میں تہشیر ہم نے دیکھی۔ وفاقی حکومت مولانا فضل الرحمان کے مدرسوں کو کروڑوں کی امداد دیتی ہے تو خیبرپختون خواہ کی حکومت مولانا سمیع الحق کے مدرسوں کو کروڑوں کی امداد دے کر وفاقی حکومت کو جواب دیتی ہیں۔ مگر ایدھی سڑک پر بھیک مانگ کر بھی شکایت نہی کرتا۔ اور اسی ایدھی کے مرنے کے بعد اس کے جنازے کو ہائ جیک کر کے عوام کو چونا لگایا جاتا ہے کہ ہم ایدھی کو ہیار کرتے ہیں۔ میرا ایک چھوٹا سا مطالبہ ہے کہ ہم اپنے اسکولوں میں بچوں کو ایدھی پڑھاہیں، اور انسانیت کی خدمت کے حوالے سے ایدھی ایوارڈ کا انقعاد کریں جو ہر سال ایدھی جیسی خدمات پر کسی ایک کو دیا جائے۔
ایدھی کے فکر و فلسفے کو نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں روشناس کرایا جائے۔ کیونکہ دنیا کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایدھی صرف ہمارے پاس تھا۔ ہم نہ تو اپنے بندوں کی قدر کرتے ہیں نہ ہی ان کے رتبے کا لحاز کرتے ہیں۔ ایدھی کی زندگی میں ہم نے جو کیا سو کیا مگر ہمارے سیاسی، سماجی لیڈرز ، دانشور، فلاسفر بشمول کچھ میڈیا کے بڑے نام عوام کے اخلاقی شعور کو خراب کرنے میں کردار کیسے ادا کرتے ہیں اس کا احساس بھی مجھے ایدھی صاحب کے جنازے کی ٹی وی پر رپورٹینگ کے دوران ہوا۔
تمام میڈیا جنرل راحیل شریف کی خصوصی شرکت کا زکر کرتا رہا۔ مگر وہاں موجود صدر پاکستان اور سپریم کمانڈر آف افواج پاکستان جناب ممنون حسین بھی کھڑے تھے مگر کسی نے بھی ان کے شایان شان ان کا زکر نہی کیا۔ وزیر اعلی پنجاب، وزیر اعلی سندھ ، گورنر سندھ بھی موجود تھے۔ مجھے حیرت ہوئ کہ صدر پاکستان اس جنازے میں یوں لگ رہے تھے جیسے ایدھی ایمبولینس کا کوئ ڈرایئور ہو۔ میڈیا تو کیا فیصل ایدھی نے بھی ان کی طرف نہی دیکھا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ آیئنی اعتبار سے صدر پاکستان کا عہدہ سب سے معتبر ہوتا ہے کہ اور اگر ہم ان کی عزت نہی کریں گے تو دوسرے بھی نہی کریں گے۔
تحریر : واٹسن سلیم گل،ایمسٹرڈیم