نیویارک: امریکی ارب پتی سماجی رہنما کلیربرونفمین اور کیتھی رسل نے متعدد خواتین کو پروفیشنل ٹریننگ دینے کی آڑ میں جسم فروشی کے لیے اسمگل کرنے کا اعتراف کرلیا۔
دونوں خواتین نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ملٹی لیول مارکیٹنگ ٹریننگ کی امریکی کمپنی ’نیگروم‘ کے لیے خواتین کو بھرتی کرنے کے بہانے انہیں جسم فروشی کے لیے کمپنی کو بھیجا۔دونوں خواتین سے قبل اسی کیس میں امریکی اداکارہ ایلسن میک بھی خواتین کو جسم فروشی کے لیے اسمگل کرنے اور انہیں جنسی غلام بنانے جیسے جرائم کا اعتراف کیا تھا۔خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس’ (اے پی) کے مطابق 40 سالہ ارب پتی سماجی رہنما اور گھڑ دور کی شوقین ارب پتی کلیر برونفمین نے بروکلین میں موجود فیڈرل کورٹ میں جرم کا اعتراف کیا۔کلیر برونفمین نے خواتین کو پروفیشنل ٹریننگ دیے جانے کے بہانے نیگزوم نامی کمپنی بھجوانے کا اعتراف کرتے ہوئے شرمندگی کا اظہار بھی کیا۔ارب پتی خاتون نے عدالت کو بتایا کہ دراصل وہ خواتین کی مدد کرنا چاہتی تھیں، تاہم انہیں اندازہ نہیں تھا کہ خواتین کے ساتھ ایسا ہوگا۔کلیر برونفمین کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے والد اور دادا کی چھوڑی گئی اربوں روپے کی دولت ورثے میں ملی اور وہ کوئی غیر قانونی کام نہیں کرنا چاہتی تھیں، تاہم چوں کہ وہ کمپنی کے ساتھ منسلک تھیں اس لیے وہ ان کے بتائے گئے طریقے کے تحت کام کرنے کی پابند تھیں۔خیال رہے کہ کلیر برونفمین کینیڈین نژاد امریکی سماجی رہنما ایجر برونفمین سینیئر کی بڑی بیٹی ہیں، ان کے والد ارب پتی کاروباری شخص تھے۔ان کے والد کئی سال قبل اسرائیل سے ہجرت کرکے کینیڈا منتقل ہوئے تھے، جہاں سے انہوں نے ابتدائی طور پر شراب کا کاروبار شروع کیا تھا، بعد ازاں انہوں نے دیگر کاروبار بھی شروع کیے۔
ایجر برونفمین 2013 میں چل بسے تھے اور وہ ورثے میں اربوں روپے اپنی بیٹی کے نام کر گئے تھے۔ان کی بیٹی کلیر برونفمین بھی سماجی رہنما اور گھڑ دوڑ مقابلوں کی ماہر کھلاڑی ہیں۔کلیر برونفمین امریکی ملٹی ٹیلنٹ کمپنی ’نیگزوم‘ کی بورڈ آف ڈائریکٹر تھیں۔اس کا مقصد متعدد افراد کو پروفیشنل ٹریننگ فراہم کرنا تھا۔اس کمپنی کے ساتھ کلیر برونفمین اداکارہ ایلسن میک اور کیتھی رسل سمیت کئی نامور اداکار، صحافی اور مارکیٹنگ کے شعبے کے افراد وابستہ تھے۔کلیر برونفمین نے اس کمپنی سے پروفیشنل ٹریننگ کے لیے خواتین کو بھرتی کیا اور انہیں کمپنی کے ہیڈ آفس بھیجا، جہاں پر ان خواتین کو کمپنی کے بانی کیتھ رنائر کی جانب سے جنسی تسکین کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اور بعض کو جنسی غلام بھی بنایا گیا۔اسی کیس میں کلیر برونفمین سے قبل اداکارہ ایلسن میک نے بھی اپنے جرائم کا اعتراف کیا تھا۔کلیر برونفمین کے ساتھ ہی ایک اور خاتون کیتھی رسل نے بھی اپنے جرائم کا اعتراف کیا اور کہا کہ انہوں نے متعدد خواتین کو پروفیشنل ٹریننگ کے لیے ہیڈ آفس بھیجا جہاں انہیں جسم فروشی کے لیے مجبور کیا گیا۔ تینوں خواتین سے قبل اسی کمپنی سے منسلک مزید 2افراد پر بھی خواتین کو جسم فروشی کے لیے اسمگل کرنے کی فرد جرم عائد کی جا چکی ہیں۔جب کہ اسی کمپنی کے سربراہ کیتھ رنائر کو بھی گرفتار کرکے ان کے خلاف ٹرائل کا آغاز کردیا گیا ہے، تاہم ان کے خلاف تاحال فرد جرم عائد نہیں کی جاسکی۔اپنے جرائم کا اعتراف کرنے والی خواتین کو 2 سال سے 25 سال قید تک سزا سنائی جائے گی اور انہیں سزائیں سنائے جانے کی سماعتوں کا آغاز جون اور جولائی میں ہوگا۔کیس کے مرکزی ملزم اور نگزون کمپنی کے سربراہ کیتھ رنائر نے خود پر لگے تمام الزامات کو تسلیم کیا ہے اور خود کو ہی خواتین کو جنسی غلام بنائے جانے کا قصور وار ٹھہرایا۔اسی کیس میں عدالت میں پیش کیے حکومتی دستاویزات کے مطابق کیتھ رنائر نے پروفیشنل ٹریننگ دینے کی ایک کمپنی بنا رکھی تھی اور اسی کمپنی کے تحت ٹریننگ دیے جانے کے تحت لائی گئی خواتین کو کمپنی کے بانی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔