کورونا وائرس کی صورتحال اورلاک ڈائون نے بڑی بڑی صنعتوں اور کاروباری افراد کو گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کیا مگر دنیا میں چند افراد نے اپنی غیر معمولی ذہانت اور موقع کی مناسبت سے اقدامات کر کے اربوں روپے کمالیے ہیں
ان افراد میں معروف ناموں کی دولت تو ریکارڈ پرآچکی ہے جن میں فوربس کے مطابق دولت مندوں کی عالمی فہرست میں یکم جون کو ایمیزون کے مالک جیف بیزوس 148 ارب ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر پر تھے۔ بل گیٹس 108 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے، فرانس کا برنارڈ آرنالٹ خاندان 102 ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے اور فیس بک کے مالک مارک زکربرگ 85 ارب ڈالر کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں۔
مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے ہرگوشے میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے کووڈ -19 کے تناظر میں نئے کاروباری آئیڈیاز بروئے کارلا کر کرونا کی صورتحال میں معاشی طورپراستحکام حاصل کرلیا ہے۔
ایسے لوگ آپ کے اردگرد بھی ہوسکتے ہیں۔
مگر افسوس کا مقام ہے کہ دنیا کی آبادی کے بیشتر حصے نے صرف خود کو وبا کے رحم وکرم پرچھوڑ کر اس وبا سے مقابلہ کرنے میں جرات نہیں دکھائی اوران میں سے بہت کم ایسے ہیں جنہوں نے نئی کاروباری سوچ کو تقویت دینے میں مدد کی ہے
امریکی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے مطابق گزشتہ دس ہفتوں کے دوران ارب پتی افراد کی دولت میں 485 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں امریکی ارب پتی افراد کی فہرست میں 16 ناموں کا اضافہ بھی ہوا ہے۔دیگر معاشی گریڈنگ کے میگزین بھی اس کی تصدیق کرتے نظر آتے ہیں
جن میں یہ بات کہی گئی کہ وبا کے آغاز میں ارب پتی افراد کی دولت گھٹنا شروع ہوئی مگر وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں آن لائن کاروبار بڑھا ارب پتی افراد کی دولت بھی بڑھنا شروع ہوچکی ہے
سب سے زیادہ فائدے میں ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مالکان رہے ہیں۔ صرف ایمیزون اور فیس بک کے بانیوں کی دولت مجموعی طور پر 63 ارب ڈالر بڑھی ہے۔ اس کی بڑی وجہ حصص بازاروں میں ان دونوں کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت بلند ہونا ہے۔ ایمیزون کے شیئر کی قیمت 42 فیصد اور فیس بک کی 53 فیصد بڑھی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پہلے سے آن لائن کاروبار کرنے والوں کے ساتھ ساتھ پاکستان سمیت دنیا بھر میں آن لائن خدمات کی فراہمی کا آغاز کرنیوالوں کی تعداد بہت کم ہے جبکہ اس دوران دنیا بھر میں اربوں افراد نے خود کو وظائف اور حکومتی امداد سے منسلک کرلیا ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ میں کروڑوں افراد نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ وہ ذریعہ آمدن سے محروم ہو چکے ہیں اس لیے ان کی مدد کی جائے۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ مزید کروڑوں افراد بیروزگار ہوئے ہیں جو سفید پوش حضرات مدد طلب کرنے سے کتراتے ہیں یا جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں یا وہ بیروزگاری الاؤنس حاصل نہیں کرپاتے۔
ناظرین یہاں ہم ان لوگوں کا ذکر کریں گے جو جنہوں نے اپنی غیر معمولی صلاحتیوں کا استعمال کر کے کرونا وائرس کی صورتحال کو اپنی طاقت بنایا اور اپنے کاروباربندہونے کا شکوہ کرنے کےاورکف افسوس ملنے کے بجائے نئی توانائیوں کے ساتھ نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
یہاں سرفہرست ہم ذکر کریں گے راولپنڈی کے ایک نوجوان کا جو کہ پیشے سے امپورٹ ایکسپورٹ اور کارگو ہینڈلنگ کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور کرونا وائرس کے باعث لاکھوں روپے ماہانہ آمدنی سے محروم ہونے کے بعد آن لائن فوڈ چین کے کاروبار سے وابستہ ہوچکے ہیں ان کی کہانی ان کی زبانی سنیے
اس کے ساتھ ساتھ راولپنڈی کے ایک معروف ریسٹورنٹ سے وابستہ ملازم نے ہمیں بتایا کہ ان کا کاروبار کرونا وائرس کی صورتحال میں گھٹ کر ایک چوتھائی رہ چکا تھا جس کے بعد انھوں نے ایک بین الاقوامی فوڈ سپلائر سے معاہدہ کرلیا مگرخواطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان کااپنے روزمرہ صارفین کیلئے کوئی قدم نہ اٹھانا ہے کیونکہ ان کی کسی بھی برانچ پر اس آن لائن سہولت کا ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی صارفین کو آگاہی فراہم کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں حکومت کی طرف سے آن لائن کاروبار کی طرف آگاہی کے بجائے لاک ڈائون کو باربار کھولنے یا اس نرم کرنے پرزوردیا گیا جس وجہ سے لوگ گومگوں کا شکار ہیں کہ وہ نئی صورتحال کے مطابق اقدامات کریں یا حکومت کی پالیسیوں پربھروسہ کریں۔