لیڈز (پرویز فتح) پانچ مئی کو عابد حسن منتو کے اعزاز میں برمنگھم تقریب پاکستانی و کشمیری ترقی پسند سیاسی جماعتوں کے درمیان اشتراک عمل کا پیش خیمہ ہوگی۔ ترقی پسند جماعتوں کے راہنماؤں کا ملک کینسر کی طرح پھیلی مذہبی انتہاپسند و دہشت گردی، جاگیرداری، سرمایہ داری، قرضہ مافیہ ملک کے سیاسی معاملات میں براہ راست اور بل واسطہ فوجی مداخلت اور ملک سے سیاسی، سماجی و معاشی استحصال کے خاتمے کیلیئے متحد و منظم پلیٹ فارم فراہم کرنے کا عزم کیا اور کشمیر عوام کے حق خودارایت کا حق تسلم کروانے کی جدوجہد کو وسیع تر ترقی پسند جمہوری سیاست کا حصہ بنانے پر اتفاق کیا۔
ساؤتھ ایشین پیپلزفورم اور عوامی ورکرز پارٹی نارتھ برطانیہ کے راہنماؤں پروفیسر نزیر تبسم، خالد سعید قریشی، پرویز فتح، پروفیسر محسن ذوالفقار، لالہ محمد یونس، احمد نظامی اور ذاکر حسین نے مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے کیے اور پانچ جون کو فرینڈز انسٹی ٹیوٹ میں شام پانچ بجے عوامی ورکرز پارٹی کے صدر اور عابد حسن منٹو کے اعزاز میں منعقد ہونے والی تقریب میں معاونت کرنے، دہشت و استحصال کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کی اپیل کی۔
تمام جماعتوں نے غیرمشروط حمایت اور سیاسی اشتراک عمل بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ محمود کشمیری نے کہا کہ عابد حسن منٹو کی جانب سے گنگا جمنا بغاوت مقدمہ میں جس عزم اور بہادری کا مظاہرہ کیا کشمیری عوام بلخصوص ان کی حمایت اسے انقلابی جذبے کی مثال سمجھتا ہے۔ ورلڈ سندھی کانگریس کے چیرمین ڈاکٹر لاکھو لوہانہ اور صدر ہدایت بھٹو نے کہا کہ سندھی و بلوچ قوم پرستوں کے خلاف ریاستی جبر کے خلاف عوامی ورکرز پارٹی ہمیشہ ان کے قدم سے قدم ملا کر کھڑی ہوئے ہے اور پنجاب میں بھی آواز بلند کرتی ہے۔
جمو و کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے چیرمین پروفیسر نزیر الحق نازش نے کہا کہ بائیں بازو کی جماعتوں کے اہتمام اور عوامی ورکرز پارٹی کا قیام ہمارے خطے کی سیاست میں ایک اہم قدم ہے اور کشمیر کی ترقی پسند پارٹیوں کو عوامی ورکرز پارٹی کے ساتھ اشتراک عمل کرتے ہوئے کشمیر میں بھی متحدہ پارٹی کے قیام کی جانب بڑھنا ہو گا ورنہ آزادی و سماجی انساف کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
رعنا نزیر نے برمنگھم تقریب کو مثالی بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ محفوظ جان جنرل سیکٹری جاوید اخواندزادہ اور سراج خان نے تقریب کے لیے بھرپور تعاون اور رابطے بڑھانے کا عزم کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نیشنل عوامی پارٹی کے راہنماوں پر غداری کے مقدمات بنے جسے بدنام زمانہ حیدر آباد ٹربیوئل کیس کہا جاتا ہے۔ تو عابد حسن منٹو نے ریاستی جبر کے خلاف نہ صرف مقدمات کی پیروی کی بلکہ ہر قدم پر ستھ دیا۔
تمام راہنماوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دہشت گردی کا ناسور ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا چکا ہے۔ ریاست اب بھی صرف ان کے خلاف کارراوئی کرتی ہے جو دفاعی اداروں کے خلاف حملے کرتے ہیں۔ بعض گروپوں کے خلاف اب بھی رابطے ہیں اور ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اگر ڈرون حملے روکنا چاہتا ہے تو اسے دہشت گردوں کی ٹھیکیداری چھوڑنا ہو گی اور ایسے افراد کو ملک سے نکالنا ہو گا جو خرابی کا باعث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ طالبان کا ہر بڑا لیڈر پاکستان میں ہی پکڑایا مارا جاتا ہے اور اس سے پاکستان پاسپورٹ بھی برآمد ہوتا ہے اور پاکستان سے دیگر ممالک کے دورے کے ثبوت بھی ملتے ہیں پاکستان ایک ایسی دلدل میں جا رہا ہے جہاں تباہی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا انہوں نے طارچہ پالسی کو وسیع تر ملکی مفاد میں مرتب کرنے اور قومی تسلط سے آزاد ہو کر تمام سیاسی پارٹیوں کی مشاورت سے خارجہ پالیسی بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات، باہمی اعتماد و سازی بحال کرنے اور دہشت گردوں کی پشت پناہی بند کرنے پر زور دیا۔
انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس دہشت گردی کی آڑ میں عوام کا معاشی استحصال انتہا کو پہنچ چکا ہے ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے لوگ اپنے مسائل کی وجہ سے فکر میں رہتے ہیں کہ اپنے اور اپنے بچوں کو دہشت گردوں سے محفوظ کیسے رکھنا ہے۔