counter easy hit

کالے کوٹ کا تقدس

ملک کی معروف اور قابل قدر وکیل عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ ہم نے کالے کوٹ کے تقدس کو برقرار رکھنا ہے، عاصمہ جہانگیر نے لاہور بار کے الیکشن کے بعد وکلاء کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کوئی جج کالے کوٹ کی بے عزتی نہ کرے، عاصمہ جہانگیر نے اس کے علاوہ بھی ججوں کے خلاف بات کی جس کو ہم لکھنے کی جسارت نہیں کرسکتے۔

عاصمہ جہانگیر کا کہنا بالکل درست ہے، ہونا بھی ایسا ہی چاہئے کہ کالے کوٹ کا تقدس برقرار رہے اور کوئی اس کی بے عزتی نہ کرے، لیکن اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ ججز کے روسٹرم کا بھی تقدس ہوتا ہے، ڈاکٹروں کے سفید کوٹ کا بھی تقدس ہوتا ہے،صحافیوں کے قلم کا بھی تقدس ہوتا ہے، حتیٰ کہ عدالت میں آنے والے سائل اور سڑک پر بھیک مانگنے والے فقیر کا بھی ایک تقدس ہوتا، اس کی بھی بے عزتی کرنے کا کسی کو حق نہیں ہوتا، فقیر کو کوئی پیسے دے یا نہ دے لیکن اس کو دھتکارا نہیں جاسکتا، غرض یہ کہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی کی عزت کرو اپنی عزت کراؤ۔

پاکستان کے تمام وکلاء بہت قابل احترام ہیں،ان کا پیشہ بھی کسی طرح سے ڈاکٹروں کے پیشے سے کم نہیں ہے، ڈاکٹر بیمار لوگوں کی جان بچانے کی کشش کرتے ہیں تو وکلاء بے گناہ لوگوں کو جیل جانے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں، اگر کسی بے گناہ شخص کو سزائے موت ہوجائے تو وہ جان سے جاتا ہےاور کسی کو عمر قید ہوجائے تو وہ زندگی سے جاتا ہے، ہر شعبے کی طرح وکلاء میں بھی چند کالی بھیڑیں ہیں، جو اس معزز پیشے کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے اور اس کا سدباب کیا ہونا چاہیے۔

اگر ہم چیف جسٹس پاکستان کے طور پر افتخار چوہدری کو بحال کرانے کی تحریک سے پہلے اور بحال ہونے کے بعد کا موازنہ کریں تو واضح نظر آئے گا کہ ججز بحالی کی تحریک سے پہلے عدالتوں، سائلوں اور پولیس کے ساتھ وکلاء کا رویہ کیا تھا اوربحالی کے بعد وکلاء کا رویہ کتنا جارحانہ ہے، ایسے کئی واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوچکے ہیں کہ چند وکلاء کی جانب سے مرضی کا فیصلہ لینے کے لئے عدالتوں میں ہنگامہ آرائی کی گئی۔

پولیس والوں اور سائلوں کو بھی مارا پیٹا گیا، ایک ایسی فوٹج بھی منظر عام پر آئی جس میں وکلاء اپنے چیمبر میں ایک شخص کو برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں، وہ اللہ کے واسطے دے رہا ہے لیکن کوئی سنوائی نہیں، دیدہ دلیری یہ کہ فوٹج میں ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ فوٹیج بناؤ، یہ شخص کتنا ہی برا ہو یا اس نے کوئی جرم کیا ہو،اس کے خلاف قانونی کارروائی تو کی جاسکتی ہے لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جائے، پچھلے ایک ماہ کے دوران لاہور کی عدالتوں میں جج سے بدتمزی کرنے، سامان اٹھاکر پھینکنے اور وکلاء کے دو گروپوں کی عدالت میں لڑائی کو بھی لوگوں نے دیکھا۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے حال ہی میں ہونے والے ایک واقعے پر پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا ہے، یہ قانونی کارروائی اپنی جگہ لیکن عاصمہ جہانگیر، حامد خان، اعتزاز احسن، ان جیسے بڑے وکلاء اور بارکونسل کے عہدیداروں کو چاہئے کہ وہ ایسے وکلاء کے خلاف تادیبی کارروائی کریں اور اپنی صفوں کو ایسے وکلاء سے پاک کریں جو اس معزز اور اہم پیشے کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کی آڑ میں ذاتی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website