تحریر : علی حسنین تابش
زندگی ایک گھٹن رستے کا نام ہے۔ جہاں اِنسان کی مسافت کے دوران ہزاروں تلخیاں، رنج والم راہ میں بیٹھے انسانِ کا منہ چڑھا رہے ہوتے ہیں۔زندگی کے سفر میں خوشیاں بھی کہیں کہیں انسان پر ابرِرحمت بن کر برستی ہیں۔اللہ جل شانہ نے زندگی عطا فرمائی اور اِنسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔نیکی اوربدی کے راستوں سے آشناکروایا ۔انسان کو عقل و شعور عطا فرمایا کہتے ہیں زندگی کو خوش اسلوبی سے جیا جائے یہی کامیابی کا راز بھی ہے لیکن پھولوں کے ساتھ بے شمار کانٹے، پھول کو توڑنے وقت ہاتھ زخمی کر دیتے ہیں۔غموں کی بات بھی کچھ ایسے ہی ہے۔خوشی اور غم کا چولی دامن کا ساتھ بھی رہا ہے ۔اِنسان کو عقل وشعور کے ساتھ ساتھ اللہ جل شانہ نے علم کی بیش قیمت سوغات سے نوازا اوران علوم کی بے شمار اقسام ہیں۔دینی علوم ،دُنیاوی علوم ،عملیات،فلکیات وغیرہ وغیرہ۔
اِسی طرح عملیات کی دو اقسام ہیں۔”نوری علم”یعنی اللہ پاک کے پاک کلام کے وظائف اور تاویزات اور دوسرا”کالا علم”جنات سے کلمات کے ذریعے کام کروانے کا علم ۔اِن علوم کا حساب بھی یوں ٹھہراجیسے انگلش اور دیسی ادویات کا سلسلہ ۔انگلش دوائی میں نشہ ہوتا ہے اورمریض کو فوراًسکون ملتا ہے جب کہ اِس کے برعکس دیسی ادویات میں جڑی بوٹیاں شامل ہوتی ہیں ۔ان سے فائدہ دیرپا اور آہستہ آہستہ ہوتا ہے ۔اِسی طرح کالا علم انگلش دوائی کی طرح فوراًکام تو کرتا ہے لیکن اس کا اثرجلد ہی زائل ہو جاتا ہے ۔نوری علم آہستہ آہستہ کام ضروری کرتا ہے لیکن اس کا اثر بھی دیر پا ہو تاہے۔
آج کے اس نفسا نفسی کے دُور میں انتظار اور صبر نام کی چیز کا خاتمہ ہوچکا ہے ۔ہر شخص چاہتا ہے کہ اُس کے دل کی مراد پلک جھپکنے سے پہلے پوری ہوجائے۔اِنسان پیدا کرنے والے رب رحمان کو بھول کر شاٹ کٹ کی تلاش میں نکل کھڑا ہواہے اور اِنسان ہو کر اِنسانوں سے ڈنگ کھاتا پھر تاہے۔یوں نام نہاد عامل بابوں کے ہتھے چڑھ کر اپنے ایمان تک سے ہاتھ دھو بیٹھا تاہے۔آپ نے دیکھا ہو گا ،واحد ملک پاکستان ہے جس کی شاہراہوں پہ لاتعدا د عامل بیٹھے نظر آتے ہیں اور ان کی اشتہاری مہم اخبارات ،ٹی وی چینلز اور سڑکوں پر جگہ جگہ ہو رہی ہوتی ہے۔عام سے اِنسا ن سے لے کر سیاستدانوں تک ،سبھی ان کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے جس کو دیکھو ان سے اپنے مسائل حل کروانے کے چکر میں پھرتے ہیں اور اپنی دولت ان کی تجوریوں میں بھرتے ہیں۔ محبوب قدموںمیں ،امتحانات میں کامیابی ،میاں بیوی کے جھگڑے ،جائیدا د ،نوکری تک قدموں میں رکھ دیتے ہیں۔اور میںحیران اِس لئے ہوں کہ اتنے عرصہ سے یہ عامل، لوگوں کے مسائل حل کرنے میں سرگرم عمل ہیں مگر پاکستان سے مہنگائی نہیںگئی ،پڑھا لکھا طبقہ ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے دفتروں کے چکر کاٹتے پھرتے ہیں اور محترمہ نوکری صاحبہ نہیں ملتی ۔۔۔۔خود کشیاں بڑھ رہی ہیں ۔گھریلو جھگڑے ریکارڈ ساز ہو رہے ہیں۔۔لو افیئر گلی گلی میں ہو رہے ہیں اور اِس کا فائدہ عدالتوں کو بھی ہوا ہے اور کہیں کہیں میڈیکل کلینک والوں کو بھی۔۔۔۔سادہ لوح ،ان پڑھ،دیہاتی لوگوں کی تو سمجھ آتی ہے کہ اِن میں شعور کی کمی ہے یا پرانی روایات کے غلام چلے آرہے ہیں مگر پڑھا لکھا طبقہ ۔بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرکے بھی گلی محلے کے عاملوں اور” سائیں بابا ”کے قدموں میں سر رکھے اپنی مرادیں مانگتے نظر آتے ہیں۔اتنا کمزور عقیدہ۔۔۔۔۔۔؟وہ بھی جدید دُور کے جدید اِنسانوں کے۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس۔۔۔۔
بات ہور ہی تھی کالے علم کی ۔کالا جادُو سر چڑھ کر بولے ۔۔۔۔کے مصداق ،کالاجادُو کرنے والے اور کرانے والے چند روپوں کی خاطر اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں۔۔۔؟مسلمانوں کے گھر پیدا ہو کر اُمت محمدی میں ہوتے ہوئے ایسے پلید کام کرتے ہیں ۔۔۔۔؟دین اسلام کے مطابق کالا علم کرنے والادائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ذرا سوچئے پھر ہماری آخرت کا کیا ہو گا۔؟رسول پاک ۖ نے ہماری شفاعت ہی نہ کی تو ہم کہاں کے رہ جائیں گے۔کاتب تقدیر کے فیصلوں کو میں مانتا ہوں کہ اِزل سے لکھے جا چکے ہیں مگر اُن کو بدلنے کا ایک مضبوط حل یہ ہے کہ دُعا کی جائے۔اِنسان اپنی تقدیر خود بدل سکتا ہے ۔ہاں ہماری ہار جیت میں ہماری نفسیات کا بہت عمل دخل ہو تاہے۔بیماریوں کا بھی کچھ ایسا ہی سلسلہ ہے ۔اِنسان کو چاہیے خود بیماری پہ حاوی رہے ۔بیماری کو خود پہ حاوی نہ ہونے دے۔اگر بیماری یا زندگی کا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہے تو قرآن مجید سے راہنمائی حاصل کریں۔۔۔قرآن مجید میں موت کے علاوہ ہر بیماری، ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔۔۔اور ہمارے آقا نبی کریم ۖ کی زندگی مبارکہ ہمارے سامنے ہے۔
اِنسان کو نئی نئی چیزیں دریافت کرنے کا جنون اِس کی فطر ت میں شامل ہے ۔جنات ہم میں ہی بستے ہیں۔ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ہم اُنہیں دیکھ نہیں سکتے ۔محسوس نہیں کر سکتے ،چھو نہیں سکتے۔لیکن پھر بھی اِن کو قابو کرنے کی ،ان کو دیکھنے کی خواہش دِل نادان میں اُبھر ہی آتی ہے۔اِن کے ذریعے سے روزی کمانا ،ان سے کا م کروانا۔الٹے سیدھے عملیات کرنا ،عدوات کے عملیات کرنا اور اِنسان کو اِنسان سے نقصان پہنچانا غلط طریقہ ہے اور یہ شیطانی فعل ہے۔۔۔کیونکہ شیطان کا تعلق جنات سے ہے۔
یہ عامل بڑے ماہر ہوتے ہیں اور زبان دارزی میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔من گھڑت ڈائیلاگ بول کر بڑے سے بڑے اِنسان کو زِیر کر لیتے ہیں اور نوٹوں سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں ۔مثال کے طور پر ایک شخص آیا ۔۔میرا یہ کام کرو ۔فلاں میرا دُشمن ہے اور وہ یہ کرتا ہے ،وہ کرتا ہے ۔اُسے میرے قدموں میں لا دو۔۔۔اور عامل صاحب نے اُس سے ہزاروں بٹورلیے اور کام کر دیا ۔جس پہ کیا اگلے د ن وہ آیا۔اُس سے دو گنا پیسے لے کر عمل ختم کر دیا۔یہی طریقہ ہے دولت کمانے کا ۔۔۔لوٹنے کا ۔۔لوگوں کو بیوقوف بنانے کا ۔۔ان کا مقصد صرف اور صرف دولت ،پیسے کماناہے اور کچھ نہیں۔آخرت کو بھول چلے ہیں ۔رب کریم نے ہمیں اپنی عبادت کرنے کے لئے بھیجاتاکہ اُس کی عبادت کرکے ہم جنت میں جائیں لیکن ہم اُلٹے شیطانی رستوں پر گامزن ہو گئے ہیں ۔روز آخرت رب کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو کس منہ سے سامنا کریں گے؟۔۔حیران کن بات یہ ہے کہ یہ خیال کبھی آیا ہی نہیں۔دوزاخ کے عذاب کی وعیدیں سنائی نہیں دیتیں۔
قبر کا عذاب ہمیں ڈراتا ہی نہیں۔دوزاخ کی آگ جلا دے گی ۔۔بعد کا مسئلہ ہے ابھی دولت کمایا بس ۔۔۔۔؟ہم نے سب باتوں کو کیوں بھلا دیا ہے۔؟جب کہ اسلام نے سب جزا و سزا کو واضع بیان کر دیا ہے۔سب کچھ جان کر بھی ہم انجان بنے پھرتے ہیں۔اپنے نفس کو پلید کر رہے ہیں۔کیوں۔۔۔۔۔۔آخر کیوں۔۔۔۔؟اِس کام میں دولت بہت ہے۔۔۔جو اِسی فانی دُنیا میں رہ جائے گی۔ساتھ تو اعمال جائیں گے ۔نیک اعمال کئے ہوں گے تو آخرت کی زندگی پُر امن اور راحت بھری ہوگی۔جب موت کا وجود تک مٹ جائے گا توپھرہم کیوں کربے خبر ہیں۔
ہماری نمازیں دکھاوے کی ،لباس دکھاوے کا ،تلاوت دکھاوے کی۔۔۔کیوں۔۔۔؟یہ سب سننے کے لئے کہ فلاں نمازی پرہیزی ہے
۔۔۔جبیں پر مہراب بنا لئے تاکہ لگے یہ بڑا نمازی بندہ ہے۔؟اور کام۔۔۔۔جادو کے عملیات کرنے کا ،کرانے کا(نعوذباللہ!)چند روز قبل ایک دوست سے بات ہوئی ۔اُس نے سنایا کہ ایک عامل جو کہ کالے علم کا ماہر تھا اور ایک بڑے (کڑاھا)میں بیٹھا کرتا تھا۔جو عورت اُس کے پاس تعوذ لینے جاتی اُسے لوٹا بھر پیشاب لانے کو کہتا۔اُس کو اپنے کڑاھا میںڈلواکر اُسے تعوذ دیتا۔رب کی پناہ ۔۔۔۔وہ پیشاب پیتا بھی تھا ،اُس سے نہاتا بھی تھا۔اُسی کڑھا میں بیٹھا رہتا تھا۔۔پولیس کے چھاپے پر اُسے گرفتار کیا گیا۔۔۔کئی میل دُور کھڑا کر کے اُسے فائر برگیڈئر سے نہلایا گیا۔بدبو کے بھبکے پھر بھی آئے جا رہے تھے۔
اب ذرا سوچئے اُس شخص کی آخرت کیا ہے۔۔؟کیا خبر کہ آخرت میںاُس کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا۔ دوزاخ کا ایندھن بنے گا یا پھر۔۔۔۔؟۔کیا فائدہ ایسی زندگی کا ۔وہ پیشاب کو آب حیات کہا کرتا تھا ۔بالاآخرپولیس نے اُسے گولی ماردی ۔اُس کا دُنیا میں آنے کا مقصد کیا تھا اور اُس نے کیا کیا۔۔۔؟زندگی تو خراب ہوئی سو ہوئی ،آخرت بھی گئی۔۔۔کہاں گئی دولت ۔۔جو کمائی تھی۔۔؟اِسی دُنیا میں رہ گئی ناں۔۔۔ایک اور ایسے ہی عامل نے دُنیا میںبڑا نام کمایا ۔دولت ،شہرت ،لوگوں کے بڑے کام کئے ۔کالے جادُو کا ماہر تھا۔۔۔اور پھر موت نے آن لیا۔۔۔مر گیا تو اُس کی قبر بنائی گئی اور دفنا یا گیا۔۔۔پھر ہوا یہ کہ ساری قبر اُس کے اوپر گِر گئی۔۔۔اِسی طرح دوسری جگہ،تیسری جگہ حتی کہ 9بار ایسا ہی ہوا۔دسویں بار اُسے ویسے ہی قبر میں ڈال کر مٹی ڈال دی گئی۔
غیر مرائی مخلوق ایسی ہوتی ہیں کہ بندہ مر جائے بھی پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑتیں۔
کیا کرنا ایسی دولت کا ،شہرت کا جو آخرت میں رسوائی کا باعث بنے۔خدارہ ۔۔۔ایسے لوگوں سے دُور رہیں اوراللہ کی رحمت سے نا اُمید مت ہوں ۔زیادہ دولت کے لالچ میں اتنے اندھے نہ بن جائیں کہ آخرت خراب ہو جائے ۔عاملوں کی زندگی گنگال کر دیکھ لیں ۔۔یہ خود گھریلو جھگڑوں ،تنازعات کا شکار ہوتے ہیں۔۔۔یہ کسی کے مسائل کیا حل کریں گے۔۔۔اُن کا رب بھی وہی ہے جو آپ کا ہے ۔پھر آپ اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رُجوع کیوں نہیں کرتے۔۔۔عقل کو بروکار لائیں۔۔۔۔جانوروں کی طرح زندگی نہ گزاریں۔اِنسان اشرف المخلوقات ہے۔اپنے منصب کو سمجھیں ۔کالا علم کیا ہے۔
شیطانی علم ۔۔شیطان کے علم کو کرنے کے لئے شیطان ہی بننا پڑتا ہے ۔۔۔خدارہ جو ایسا علم پڑھ رہے ہیں تو فوراًتوبہ کرلیں ،رب کریم رازق ہے وہ بے شمار رزق دے گا۔۔۔اور دُنیا و آخرت سنور جائے گی۔۔۔کیوں اپنی اوردُوسرو ں کی زندگیوں سے کھیلتے ہو۔دُنیا اور آخرت میں رسوا ہونا چاہتے ہووہ بھی چند کھوٹے سکوں کی خاطر۔۔۔۔لوٹنا چھوڑ کر اپنے رب کی طرف لوٹ آئوں کیونکہ یہی زندگی ہے۔۔۔۔باقی سب عذاب ہی عذاب ہے۔
تحریر : علی حسنین تابش