تحریر: سید فیضان رضا
یہ واقعہ بروز دو شنبہ ذوالحجہ 317 ہجری کا ہے قرامطہ فرقے کا بانی ابو طاہر سلیمان قرامطی مکہ معظمہ کا رخ کرتا ہے۔ حاجی وہاں پہنچ چکے تھے اور فریضہ حج ادا کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ابو طاہر سب سے پہلے گھوڑے پر سوار تلوار ہاتھ میں لیے مسجدِ حرام میں داخل ہوتا ہے۔ اس نے شراب منگوائی اور مسجد میں گھوڑے پر بیٹھ کر شراب پینے لگا۔یہ منظر کسی بھی مسلمان کے جذبہء ایمانی کو بیدار کرنے کے لیے کافی تھا۔مسجد نبوی میں کچھ لوگ موجود تھے انہوں نے واویلہ کیا اور حاجی احرام باندھے دوڑتے ہوئے اس کی طرف لپکے۔وہ امن کی جگہ تھی اور سب حاجی نہتے تھے۔ابو طاہر نے اشارہ کیا اور تمام قرامطی حاجیوں پر ٹوٹ پڑے۔حجاج کا بدترین قتلِ عام شروع ہوا اور حجازِ مقدس کی زمین رنگین ہوتی چلی گئی۔ابو محلب اس وقت امیرِ مکہ تھا مگر اس کے پاس اُس وقت اتنی فوج نہیں تھی کہ وہ قرامطیوں کا مقابلہ کرتا۔وہ پھر بھی مسلح سپاہیوں کے ساتھ ابو طاہر کے پاس پہنچا اور اُس کوبعض رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔
”حجاج کے قتل سے ہاتھ ہٹا لے ابو طاہر کہیں ایسا نہ ہو کہ تو اللہ کے عذاب کی زد میں آجائے۔” ابو محلب نے للکار کہا جس پر ابو طاہر نے ایک قہقہ لگایا، ”امیرِ شہر کو عذاب دکھا دو” اوراپنے سپاہیوں کو ابو محلب پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ ابو محلب کی فوج نے ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر قرامطی نہ صرف تعداد میں زیادہ تھے بلکہ زیادہ جنگجو بھی تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے ابو محلب کے سب سپاہی شہید ہوتے چلے گئے۔اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ غلافِ کعبہ کو کھینچ کر ٹکرے ٹکرے کردیا جائے۔ تمام قرامطی اس پر ٹوٹ پڑے اور تلواروں کے وار کر کے غلافِ کعبہ کو چھلنی کردیا۔قرامطیوں نے چشمہء زم زم کی جگہ کو بھی مسمار کیا اور مورخین کے مطابق وہ گیارہ دن تک حجازِ مقدس کی بے حرمتی کرتے رہے۔اس کے بعد ابو طاہر نے حجرِ اسود ایک اُونٹ پر لدوایا اور اپنی سلطنت ہجر (بصرہ) کی طرف روانگی اختیار کی۔
حجرِ اسود تقریباً 22 سال تک ابو طاہر کے قبضے میں رہا۔ 317 ھ سے 327 ھ تک فریضئہ حج ادا نہ ہو سکا۔ وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ وہاں حجرِ اسود نہیں تھا، بلکہ ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ حاجیوں کے تمام قافلے قرامطی لُوٹ لیا کرتے تھے اور حاجیوں کو قتل کردیا کرتے تھے۔آخر کارایک قسم کا بھتہ مقرر کیا گیا اور اُس کو ادا کرنے کے بعد ان کی جان بخشی اور حج کی اجازت دی جانے لگی۔ اس عرصہ میں کسی ماں نے کوئی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نہیں جنا۔۔کوئی محمد بن قاسم تھا نہ کوئی طارق بن زیاد۔۔۔ مسلمانوں کی عظمت اور بہادری کے ثناخواں اپنی قلمیں توڑ کر پھینک چُکے تھے۔۔۔ مسلمانوں کی ایک وسیع سلطنت تھی۔بااختیار خلیفہ تھا، لاکھوں مسلمان تھے اور اُن کے مقابلے میں کچھ ہزار قرامطی۔۔خلیفہ ء وقت اس سے پہلے بھی ابو طاہر کی سرکوبی کے لیے کافی لشکر بھیج چکا تھا مگر وہ سب شکست سے دوچار ہوئے۔مسلمانوں کا جذبہء ایمانی ہوا ہو چکا تھا۔
وہ لشکر جو اپنی قلت تعداد و رسد کے باوجود بیک وقت دو سپر پاورز قیصر و کسریٰ سے ٹکرا گئے تھے یہاں چند ہزار قرامطیوں سے ذلت آمیز شکست کھاتے رہے۔ قرامطی اپنے آپ کو اہلِ اسلام کہتے تھے اور ابو طاہر اُن کانبی بنا ہوا تھا۔خلیفہ مطیع باللہ نے مسندِ خلافت سنبھال کر ابو طاہر کو حجرِ اسود کے عوض تیس ہزار دینار کی پیش کش کی جو اُس نے قبول کر لی اور 22 سال کے عرصے کے بعد حجرِ اسود کو واپس خانہ کعبہ میں نصب کر دیا گیا۔ابو طاہر تو ایک اذیت ناک موت کا شکار ہو کر مر گیا مگر اس کا فرقہ زندہ رہا۔قرامطیوں کی آخری حکومت ملتان میں بنی جہاں یہ بے حد طاقتور بن چُکے تھے۔ملتان میں رقص و سرود کی محفلیں ہوا کرتی تھیں اور شراب و شباب کے دور چلا کرتے تھے، ملتان کی گلیاں برہنگی کی تصویر بنی رہتی تھیں، کیونکہ قرامطیوں کے عقائد میں جزا وسزا کا کوئی تصور نہیں تھا۔ سلطان محمود غزنوی نے مُلتان پر حملہ کیا اور خود ایک سپاہی کی طرح بے جگری سے لڑا۔ مورخین کہتے ہیں سلطان نے اپنی تلوار سے اتنے قرامطی قتل کیے کہ اُس کے ہاتھ قرامطیوں کے خون کی وجہ سے تلوار کے دستے پر جم گئے تھے جسے گرم پانی میں رکھ کر علیحدہ کیا گیا۔ملتان کی گلیوں کو قرامطیوں کے خون سے نہلا دیا گیا، اور ان کا ملتان میں بالکل صفایا کردیا گیا۔
یہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک عبرت ناک باب تھا۔ اُس وقت اسلام کمزور نہیں تھا۔اسلام کی عمر صرف تین صدیوں پر محیط تھی۔مگر قوت کا شیرازہ بکھرا ہوا تھا۔۔ خلفائے وقت اپنی خلافت کو محفوظ بنانے میں مصروف تھے تو سلطان اپنی بادشاہت کی دوامی کے لیے بے چین۔آج اسلام کی حالت اُس دور سے بھی ابتر ہے۔ امتِ واحدہ تقسیم ہو چکی ہے۔ نصف صدی سے قبلہء اول کی دردناک آواز پر کوئی صلاح الدین ایوبی بیدار نہیں ہوا۔۔کسی غزنوی نے غزہ کے قتلِ عام کا انتقام نہیں لیا۔۔اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد اور مسلمانوں کی موجودہ حالت دیکھ کر میں کافی افسردہ تھا۔ پھر مجھے غزوہ ہند کی حدیثیں یاد آنے لگیں۔۔ایسے ہی جیسے گُپ اندھیرے میں روشنی کی کوئی چمک۔۔وقت کے تمام خالد، ایوبی، غزنوی اور زیاد نے اس غزوے کے لیے ایک جگہ جمع ہوجانا ہے، یہیں سے مجاہدین کا وہ لشکر تیار ہوگا جس کی سرکردگی کے لیے حضرت عیسیٰ کا نزول ہوگا اور جو پوری دنیا میں عالمِ اسلام کا غلبہ کردے گا۔اس کا آغاز وقت کے قرامطیوں (تحریکِ طالبان پاکستان) کے خلاف آپریشن سے ہو چکا ہے۔جی وہی قرامطی جو بے گناہ مسلمانوں کے قتلِ عام میں ملوث تھے۔وہ ہی قرامطی جو طالبان کی طرح بہت جنگجو تھے اور جن کے خلاف جنگ کرنا بے حد مشکل کام تھا۔جو اپنے آپ کو اہلِ اسلام بتاتے تھے اور مسلمانوں کو کافر اور مرتد قرار دے کر اُن کا قتلِ عام کرتے تھے۔۔بخاری شریف (2539:6) میں ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا، ”وہ کفار کے لیے نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مسلمانوںپر کریں گے، اس طرح وہ دوسرے مسلمانوں کو گمراہ، کافر اور مشرک قرار دیں گے تاکہ ان کا ناجائز قتل کر سکیں” ۔
اسی طرح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ذکر ہے ”وہ ناحق خون بہائیں گے”،اور ” وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے” (بخاری و مسلم) ”وہ تمام مخلوق سے بد ترین لوگ ہوں گے” (مسلم) ”گھنی داڑھیوں والے۔۔۔اونچا تہبند باندھنے والے ہوں گے” (بخاری) ْ خوارج کے بارے میں صحیحین نے باقاعدہ باب قائم کیے ہیں اور ان کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، کالم کی تنگی کے باعث تمام احادیث کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے مگر اِن احادیث کے مطالعہ سے آپ یہ یقین کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ ان خوارج کے بارے میں ہی ہیں جو پاکستان میں طالبان اور عراق و شام میں داعش کے نام سے سرگرم ہے۔ باطل کی لگائی ہوئی یہ آگ اب ان کے ہی گلے پڑنے والی ہے۔۔بھاگتے ہوئے طالبان بوکھلاہٹ میں امریکی اور ہندوستانی قونصل خانوں کا رُخ کر رہے ہیں۔۔ عظمت کی تاریخ رقم ہونے والی ہے۔۔یہ ”ضربِ عظب” اب حقیقت میں محمد ۖ کے غلاموں کی ضرب بن چکی ہے۔۔یہ سب محمدۖ کی تلواریں بن چُکے ہیں۔۔اور احادیث میں انہیں وقت کے بہترین لوگ اور بہترین شہید کہا گیا ہے۔۔اللہ کی فوج کا اللہ نگہبان!