تحریر : بشریٰ خان
“بیٹا,رک جاؤ,باہر نہیں جانا,پتہ ہے نہ آجکل بچوں کا اغوا کس قدر بڑھ گیا ہے,,,یار مما کچھ نہیں ہوتا,بس میڈیا کا پھیلایا ہوا,پروپگینڈہ ہے.دیکھیے گا ابھی 10 منٹ میں آ جاؤں گا”۔ارسل یہ کہہ کر کھیلنے کے لئے چلا گیا اور اسکی ماں یہ نہ کہہ سکی بیٹا میں پہلے ہی بہت بے چین ہوں۔10 منٹ سے آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا اور,ارسل ابھی تک نہیں لوٹا تھا.بے چین ماں پچھتا رہی تھی کہ کاش میں نے اسے جانے ہی نہ دیا,ہوتاادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی کہ ایک بچہ آیا اور بولا ارسل کو تو دو آدمی آئے اور اٹھا کے بھاگ گئے .
ذرا سوچئیے اس ماں کی حالت,اسکا پچھتاوا جو ساری زندگی اسکے ساتھ جونک کی طرح چمٹا رہے گا.کیا اس اغوا میں اسکی غلطی تھی؟ اغواکار تواپنا کام کر کے چلے گئے اور ایک ماں کے لئیاندھیرے چھوڑ کر چلے گئے. مجھے سمجھ نہیں آتاکہ ظلم و بربریت کی اس داستان میں ہمیشہ بچے ہی کیوں زد میں آتے ہیں؟ کام کروانا ہو بچوں سے کروالو,چائلڈ لیبر پر پابندی ہے اسکے باوجود اکثر گھروں میں کام .کرنے کے لئے بچیاں ہوتی ہیں.کسی این جی اسٹیشن پر کھڑے ہوں آپ کی گاڑی صاف کرنے کے لئیے آنے والا بچہ ہی ہوگا.جسمانی اعضاء چاہئیے بچوں کو اغوا کر لو.اقوام متحدہ کی تنظمیں ,علاقائی تنظیمیں قانونی ادارے سارے بچوں کی مرتبہ بھنگ پی کر کیوں سو جاتے ہیں؟؟؟ قصور کا واقعہ ہوا تو بچوں کی زندگی برباد اور سب کچھ جانتے ہوئے بھی اصلی مجرم آزاد ؟ ابھی پنجاب بھر میں اغوا کاری ہورہی اور ڈی آئی جی صاحب فرماتے ہیں میڈیا زیادہ بتا رہا ہے,اور بچے تو اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر جاتے؟؟
آخر کس کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے؟کون ہے ان سب کے پیچھے؟ کیوں آخر حکومت ایسے واقعات پر آنکھ,کان بندکر لیتی ہے؟ ”میڈیا آزاد ہے !! اسکو اظہار رائے کی پوری پابندی ہے ” کا راگ ہر کوئی الاپتا ہے لیکن ان بچوں کیساتھ ظلم پر میڈیا کیوں خاموش ہے؟ کیوں کوئی صدا بلند نہیں ہو رہی؟کہیں ایسا تو نہیں کہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بھٹے ہوں؟
ویسے کیا آپ سب میں سے کسی ایک کے دماغ میں بھی نہیں آتا کہ آخر ان بچوں کے ساتھ یہ سب ہونے کی وجہ کیا ہے؟ کون ہے ان کے پیچھے؟ کوئی کیوں ان ماؤں کی گود اجاڑ رہا ہے؟ صرف ایک بچہ تو اغوا نہیں ہوا کہ اسکو گھر سے چلے جانے کی خبر بنا کر دبا دیا جاتا ۔علاقے سے 400 سے 500 بچوں کا اغواء کوئی معمولی بات ہے؟ بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے پیچھے پورا گروہ ہے.جن کی جڑیں کسی بڑی تنظیم سے ملتی ہیں جس نے بنا مقصد تو اپنے پنجے ان معصوموں میں نہیں گاڑے ہوں گے . کہیں ایسا تو نہیں کوئی ان بچوں کو عرب ممالک میں سمگل کر رہا ہو۔صرف اور صرف اپنے شوق، اونٹوں کی ریس کی خاطر۔ کہتے ہیں اونٹ چیخنے کی آواز سن کر بہت تیز بھاگنے لگتا ہے۔اور عرب تو اونٹوں کی ریس کے حوالے سے بہت مشہور اور بچوں کی چیخیں کون سنے گا۔
ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس میں کوئی انٹرنیشنل مافیا ملوث ہو۔انسانی اعضاء کی خریدوفروخت کوئی نئی بات تو نہیں۔جب یہ کام ترقی یافتہ ممالک میں نہیں بنا تو رْخ ترقی پذیر ممالک کی طرف مڑ گیا۔ مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ قانون ساز اداروں پر۔اس مشکل کام میں وہ کہاں ہیں۔انہیں کیوں روتی بلکتی مائیں نظر نہیں آتیں،کیا صرف اپنی اولاد کا دکھ ہی اپنا ہوتا ہے۔چیف جسٹس کا بیٹا اغوا ہو تو ہر طرف ہلچل مچ جاتی ہے۔پھر اتنی جانیں جو ضائع ہوئیں وہ کس کے سر ہیں۔ان کا حساب کون دے گا؟
مفروضے تو بہت سے قائم کیے جا سکتے ہیں اور کہے بھی جا رہے ہیں۔جیسا کہ ڈی آئی جی صاحب نے کہا کہ بچے اپنی مرضی سے گئے ہیں، لوٹ آئیں گے یا اغوا تو ہوتے ہی رہتے ہیں ۔۔۔ تو محترم میں آپ سے سے پوچھنا چاہوں گی اگر آپ کو برا نہ لگے کہ اگر ان اغوا کاروں میں آپ کا اپنا بچہ یا بچی بھی شامل ہوتی تو آپ کی کہتے؟ یہی سب کچھ؟ ویسے بھی بقول آپ کے اغوا تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ یقیناً آپ اسے ڈھونڈنے کی سعی تو نہ کرتے۔۔۔ ہے نا؟؟ اور اگر چند دن بعد کسی چوراہے سے اس کی کٹی ہوئی لاش ملی تو آپ کیا کہتے؟ کچھ بھی نہیں؟ یقیناً آپ ایسا سوچ کے بھی تڑپ گئے ہونگے. اب اپنے آپ کو ان ماں باپ بہن بھائیوں کی جگہ پر رکھ کر سوچئے جنہوں نے یہ سب کچھ جھیلا ہے جنھیں انصاف کی امید ہے. ایک بارذرا انکی جگہ کھڑے ہوں تو تو شاید آپ کو سمجھ آئے. “درد کس چڑیا کا نام ہے” اور اگر آپ کچھ نہیں کر سکتے تو ایک چھوٹی سی مہربانی کیجئے “وردی اتار دیجئے ، یہ آپ کے کسی کام کی نہیں” میں ان ماؤں کی حالت سوچتی ہوں تو مجھے نیند نہیں آتی. ان کے والد کی خاموش آہیں مجھے اپنے منہ سے نوالہ چھینتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں. مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ ماں مجھ سے کہہ رہی ہو کہ “تم تو محفوظ بیٹھی ہو.تمھیں ہمارے درد کی کیا خبر ، گھر بیٹھ کر بولنا بہت آسان ہے . یوں لگتا ہے وہ آہیں مجھے کہتی ہوں کہ میرے بچوں کو بھی کسی نے کھانا دیا ہوگا کہ نہیں. ان کی بھوک کون مٹائے گا؟؟ میرے در و دیوار بین کرتے ہیں. کیا قصور تھا ان معصوموں کا؟؟ کیا انسانی جان اتنی سستی ہوگئی ہے ؟ کہ اتنے بچے غائب ہوجائیں اور حکومت کے بیرون ملک چکر ختم نہ ہوں. انہیں خود شاندار سہولتیں درکار ہوں سیکیورٹی ہو اور یہاں عوام چاہے تڑپے کوئی فرق نہیں . یہ تو بے حسی کی انتہا ہے .
میں یہ نہیں کہتی صرف حکومت قصوروار ہے بلکہ میرے نزدیک ان کی ذمہ دار خود عوام بھی ہے .ہم اتنے بے اعتماد ہو گئے ہیں کہ ایسا کچھ نہ بھی ہو تو ہم اس کو غلط سمجھ لیتے ہیں … پھر وہ غبارے والا ہو یا پھر کوئی معصوم عورت .. ہم خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے سارے فتوے خود ہی لگا لیتے … پھر چاہے ڈاکو زندہ جلائیں جائیں یا عورتوں کو بیدردی سے قتل کر دیا جائے ، بات ایک ہی ہے ،،، اپنے آپ کو نہ تبدیل کر سکیں تو حکومت کیسے تبدیل ہوگی ؟ تبدیلی کا آغاز ہمیشہ اپنی ذات سے ہوتا ہے . انقلاب عمران خان ، نواز شریف یا کوئی اور سیاسی رہنما نہیں لائیگا بلکہ انقلاب ذات سے شروع ہوتا ہے … کہیں پڑھا تھا میں نے کہ “اکائی کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہے ” تو اگر ہم ایک ہو جائیں گے تو بلاشبہ انقلاب آ ہی جائے گا ، پھر حکومت بھی صحیح معنوں میں ہماری ہوگی اور جرائم میں بھی واضح کمی آے گی اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ ختم ہو جائیں گے . میں اللہ پاک سے دعا کرتی ہوں کہ سب بچے بڑے بوڑھے ٹھیک ہوں .. اور امید کرتی ہوں حکومت ان مجرمان کو قرار واقعی سزا دے گی ..انشاء اللہ ۔۔۔اللہ سب کو اپنی امان میں رکھے ..کہ
راہیں روشن نہ سہی ،، لیکن امید بھی نہیں ٹوٹی…
تحریر : بشریٰ خان