تحریر : ایم سرور صدیقی
تمام سیاستدان جمہوریت ۔۔ جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے، بیشتر حلق پھاڑکر پارلیمنٹ کی بالا دستی کیلئے چیختے ہیں، زیادہ تر آئین اور قانون کی باتیںکرتے ہیںتو میری ہنسی نکل جاتی ہے کہ ان لوگوںنے عوام کو کیسے کیسے ڈھب سے بیوقوف بنایا ہواہے پھر بھی نہ جانے کیا بات ہے لوگ ان کے چنگل سے نکلنے کے لئے تیار ہی نہیں؟ یوں محسوس ہوتاہے میرے ہم وطن سورج مکھی کے کھیت میں اگنے والے پودے ہیں سورج نکلتاہے تو سب کے منہ سورج کی طرف ہو جاتے ہیں اور ساری ان کی ساری زندگی ایسے ہی زندہ باد۔۔مردہ باد۔۔۔آوے ای آوے یا جاوے ای جاوے کی گردان کرتے گذرجاتی ہے۔ سمجھنے،سوچنے اور غورکرنے کی بات ہے جمہوریت۔۔جمہور کیلئے ہے یا اشرافیہ کیلئے۔۔۔پاکستان کے تمام سیاستدانوںپر نظردوڑائیں99%سیاستدان ابن ِ سیاستدان ہوں گے ان لوگوںنے جمہوریت، آئین اور قانون کو گھرکی لونڈی بنارکھاہے سرکاری نوکریاں،قرضے،پلاٹ ، وزارتیں اور ملکی وسائل انہی کیلئے مخصوص ہوکررہ گئے ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ جمہوریت اس طبقہ کے فائدے کی بات ہے یہی لوگ جمہوریت کے نام پر کاروبارکررہے ہیں انہی نے اپنے بھائیوں،سالوں اور کزنوںکے نام پر کمپنیاں بنائی ہوئی ہیں وہ فرنٹ مین ہیں جبکہ منافع ان کی اپنی جیبوں میں آرہاہے۔
انہوںنے آکٹوپس کی طرح پورا معاشرے کو جکڑ رکھاہے عدلیہ، بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ،فیوڈل لارڈز،سرمایہ داروں اور سیکیورٹی اداروںکے بڑے بڑے خاندانوںکے ساتھ ان کی رشتہ داریاں ہیں حکومت کسی پارٹی کی آجائے، اپوزیشن میں جو بھی سیاستدان ہو ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا ان کا کوئی نہ کوئی عزیز رشتہ دار حکومت میں ضرورہوتا ہے اس لئے اشرافیہ کا کبھی کوئی کام نہیں رکتا میرٹ پر ہونے کے باوجود عام گھرانوںکے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوںکو ڈھنگ کی کوئی سروس نہیں ملتی جبکہ اشرافیہ کے میٹرک انٹر پاس ،نااہل بچوںکو سرکاری اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بڑے بڑے مشاہرے پر بڑے آرام سے دھڑلے کی جاب ملنا معمولی بات ہے اس لئے شاید عام آدمی کو یہ احساس تک نہیں پاکستانی سماج کو یرغمال بنا لیا گیاہے۔ جب تک عوام کو اس استحصالی نظام سے نجات نہیں دلائی جاتی کچھ تبدیل نہیں ہوگا زیادہسے زیادہ چہرے بدل جائیں گے یہی اس قوم کا المیہ ہے عوام کی حالت اور مسائل جوں کے توں رہیں گے پاکستان میں نصف صدی سے یہی کچھ ہورہاہے اس ماحول میںعمران خان نیا پاکستان بنانے کی بات کرتے ہیں یا ڈاکٹرطاہرالقادری غریب کی بات کرتے ہیں۔۔ عوام کا ان کے نعروںسے متاثرہونا فطری امرہے کیونکہ آج تک کسی نے اس قوم کو جمہوریت کے ثمرات نہیں پہنچائے،ملکی اداروںکو سدھانے کیلئے کسی حکمران نے کچھ بھی نہیں کیا خصوصاً پولیس اور عدالتوںکے معاملات کو بہتر بنانا ہو حکومت کی پہلی ترجیح ہونا چاہیے لیکن لگتاہے
اس کے متعلق سوچنا بھی ہمارے حکمران گوارا نہیں کرتے تین تین بار اقتدار ملنے کے باوجود اگر عوام کی حالت نہیں بدلی تو سمجھا جا سکتاہے انتخابات کے موقعہ پر سبز باغ دکھانا،طفل تسلیاں دینا،بلند بانگ وعدے اور دعوے کرنا سیاستدانوں کا مجبوب مشغلہ ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد وعدے بھول جانا معمول کی بات ہے۔جن سیاستدانوںکا جمہوریت پر ایمان ہے وہ عوام کی خدمت کے لئے دن رات ایک کردیتے ہیں وہ کسی پارٹی کے بھی محتاج نہیں ہوتے ہمارے سامنے کئی ایسی مثالیں موجودہیں کہ کچھ لوگ بڑے بڑے سیاستدانوں اور پارٹیوںکے نامزد امیدواروںکے مقابلہ میں آزاد حیثیت میں جیت جاتے ہیں اور ہارنے والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کا تو باوا آدم ہی نرالاہے یہاں ہمیشہ عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھا گیا، کیڑے مکوڑوںجیسا سلوک کیا گیا۔ان کے بنیادی حقوق پر توجہ نہیں دی گئی، مسائل حل نہیں کئے گئے ،غربت،بیروزگاری، مہنگائی،لوڈشیڈنگ جیسے مسائل نے عام آدمی کی ناک میں دم کررکھاہے۔
عوام دووقت کی روٹی کیلئے اپنے گردے فروخت کررہے ہیں کوئی سڑک پر بیٹھا بچے بیچنے پر مجبورہے۔۔غربت سے تنگ آکر خودکشی کرنے والوںکی تعداد بھی سینکڑوںمیں ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجودبیروزگارلاکھوں میں ہیں نوجوان نسل اپنے مستقبل سے مایوس ہوتی جارہی ہے کوئی حکمران ان کے بارے کچھ نہیں سوچتا اور ایسا کرنے کی ضرورت ہے نہ پرواہ۔۔۔پاکستان کا آئین سب کو یکساں ترقی کے مواقع فراہم کرنے کی ضمانت دیتاہے مگر اشرافیہ سمجھتی ہے ترقی، خوشحالی،وسائل صرف انہی کے لئے مخصوص ہے عام پاکستانی کیلئے شجرِ ممنوعہ ہے۔۔۔آخر 20کروڑ عوام کا یہ استحصال کب تلک ہوتارہے گا؟۔۔اس قوم نے کبھی اسلام کے نام پرقربانیاں دیں تو۔۔کبھی جمہوریت کیلئے کوڑے کھائے۔کبھی سیاست کے نام پر لوٹا گیا تو کبھی حقوق کے لئے بے وقوف بنایاگیا
خداوندا تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری، سلطانی بھی عیاری
شاید اسی لئے محسوس ہوتا جیسے ہم ان سیاستدانوں کے غلام ابن ِ غلام ہیں،موروثی سیاست کے یہ شاہکار کسی اور کو اپنے مد ِ مقابل برداشت نہیں کرسکتے پولیس اہلکار ان کی مٹھی میں رہتے ہیں ان کی انتقامی سیاست کے آگے کسی کو دم مارنے کی جاہ نہیں ہے اسی سبب لگتاہے میرے ہم وطن سورج مکھی کے کھیت میں اگنے والے پودے ہیں سورج نکلتاہے تو سب کے منہ سورج کی طرف ہو جاتے ہیں اور ساری ان کی ساری زندگی ایسے ہی زندہ باد۔۔مردہ باد۔۔۔آوے ای آوے یا جاوے ای جاوے کی گردان کرتے گذرجاتی ہے۔۔۔
دل سے ایک ہوک اٹھتی ہے ایک آرزو مچلتی ہے، دل ہی دل میں ایک دعا ہونٹوں تک آجاتی ہے ۔۔۔ایک حسرت ہے ۔۔۔ایک خواہش ۔۔۔ یہ چلن اب بدلنا چاہیے۔۔۔غریبوںکی قسمت بھی بدلنی چاہیے یہ نظام۔۔۔یہ سسٹم ۔۔یہ ماحول تبدیل ہونا چاہیے۔جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچنے چاہییں معلوم نہیں عوام کی اکثریت اس اندازسے سوچتی بھی ہے یا نہیں جو ہر انتخابات میں ازمائے ہوئے لوگوںکو پھر ووٹ دے دیتے ہیں اس کا نتیجہ وہی نکلنا یقینی ہے جو ہمارے سامنے ہے جس ملک میں سیاسی جماعتیں مسلک بن جائیں وہاں اس سے بھی زیادہ خوفناک صورت ِ حال پیداہو سکتی ہے عوام کا شکوہ،غصہ،ناراضگیاں،شکوے اور شکائتیں کیسی؟یہ اٹل حقیقت ہے انسان جو بوتاہے وہی فصل کاٹنا پڑتی ہے اگر جاہل،مطلب پرست،طوطا چشم اورکرپٹ لیڈر ہی ہمارا انتخاب ہے تو کوئی کچھ نہیں کرسکتا قدرت ہم پر کیونکررحم کھائے ؟
خوشگوار مستقبل،ترقی و خوشحالی ،امن سکون ۔۔۔شاید جاگتی آنکھیں یہ سپنا دیکھتی ہیں ۔۔زور، زورسے روز، روز آنکھیں ملنے کے باوجود تعبیرنہیں ملتی تو اس میں کسی کا کیا قصور؟ ان حالات۔۔۔ اجتماعی بربادی،مایوسی ،نا امیدی کے ذمہ دار تو ہم خود ہیں ہم اپنے متعلق سوچتے ہی نہیں، رونا ۔۔رونامقدرجان لیاہے رات دن کا بحث ومباحثہ اپنا معمول ہے،دنیا جہاں ہر معاملہ میں دخل اندازی کا ہم نے ٹھیکہ لے رکھاہے، اپنے ملک کے حالات تو بہتر بنا نہیں سکتے دوسروںکو مشورہ دیتے نہیںتھکتے ،یہ طرز ِ عمل،یہ انداز ِ فکر،یہ سٹائل لائف دنیا میں فقط پاکستانی قوم کا ہی خاصا ہے۔ وقت اجازت دے۔تنہائی میسرہو دل و دماغ کے دریچے سب کھول دیں ہم الزام دوسروںکو دیتے ہیں غور سے سوچیںتو قصور اپنا ہی نکلے گا۔
تحریر : ایم سرور صدیقی