تحریر: حافظ محمد فیصل خالد
دنیا کے کسی بھی مذہب کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر مذہب نے معاشرتی اصلاح کیلئے کچھ رہنما اصول متعارف کرائے تاکہ ایک متوازن معاشرہ وجود میں آ سکے۔ اسی طرح اسلام نے بھی اصلاحِ مشارہ کیلئے ایسے بہترین رہنما اصول متعارف کرائے جوقیامت تک آنے والوں کیلئے مشعلِ راہ ہیں۔ اسلام نے خاص طور پر دوسرے مذاہب کے عقائد کے احترام پر زور دیا اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد سے اچھے انداز میں پیش آنے کا حکم دیا گیا تاکہ معاشرے میں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کسی قسم کے احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں۔ مگر بد قسمتی سے ماضی تا حال چند شر پسند اسلام مخالف عنا صر نے وقتاََفوقتاََ نہ صرف اپنے ہی مذہبی عقائد کو پامال کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تا حال اسلام کے بنیادی عقائد کی تضحیک کر کے مسلمان طبقے کی دل آزاری کر رہے ہیں۔ اور نتیجتاََ مذاہب کے درمیان تنائو بڑہتا جا رہا ہے جو کہ ایک خطرناک عمل ہے۔
حال ہی میں ایک فرانسیسی میگزین چارلی ایبڈو میں گستاخانہ مواد کی اشاعت اسی کڑی کاحصہ ہے جس کے بعد اس واقعہ کے ردِ عمل میں ٧١ لوگ مارے گئے۔اس واقعہ کے بعد دنیا بھر سے چالیس سے زائد رہنمائوں نے فرانسیسی حکومت اور میگزین کی مینجمنٹ سے اظہارِ یکجہتی کیا جبکہ دوسری جانب کچھ اعتدال پسند اداروں اور رہنمائوں نے اس شرم ناک واقعہ کی مذمت بھی کی۔ ( ١ )نیو یارک ٹائمز لکھتا ہے کہ فرانسیسی رسالے کا نیا سر ورق نئے خوف کے ساتھ آیا ہے۔ (٢) مشرقِ وسطی کے معتبر اخباروں نے پیغمبر ۖ کی شان میں کی گئی گستاخی کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ (٣) اردن کا سرکاری اخبار الدستور لکھتا ہے کہ چارلی کی اشتعال انگیزی جاری۔(٤) الجزائر کے روزنامہ الشروق میں حبیب راشدین نے فرانسیسی حکومت کی جانب سے چارلی کی مالی امداد پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس قدم نے تمام سرخ لکیریں عبور کر دیں او راس عمل کو مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کا آغازقرار دیا۔(٥)ایران کے سرکاری ٹی وی نے اس خاکے کو اشتعال انگیز قرار دیا۔ (٦) ترکی کے مشہور اخبار یینی اکیت نے چارلی ایبڈوکی اشتعال انگیزے کے خلاف پورا صفحہ شائع کیا جس میں مغرب کے دہرے معیار پرسخت الفاظ میں تنقید کی گئی۔(٧)سعودی عرب کا روزنامہ الوطن لکھتا ہے کہ آزادئِ رائے کو وہاں رک جانا چاہئے جہاں کسی کے رنگ، نسل اور مذہب کی بے حرمتی ہوتی ہو۔(٨) لبنانی اخبار النور نے بھیمغرب پر دہرے معیار کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف تو یورپی یونین یہودی دشمنی کو غیر قانوونی قرار دیتی ہے جبکہ دوسری جانب ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے جزبات کو مجروح کرنے میں کوئی قباہت محسوس نہیںکرتی۔(٩ ) چین کے سرکاری میدیا نے بھی چارلی ایبڈو کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں مسلمانوں کو غیر ضروری اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔(٠١) چینی اخبار گلوبل ٹائمز بھی خاکوں کو غیر مناسب قرار دیا ۔ اسکے علاوہ لا تعداد تبصرہ نگاروں نے بھی اس ابلیسی حرکت کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
الغرض کے دنیا بھر سے ہر ذی شعور اور اعتدال پسند گروہ نے مذہب و نسل کی تمیز سے بالاتر اس گستاخانہ امر کی مذمت کی اور عالمی برادری سے اس قسم کی اشاعت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تاکہ آئندہ ایسے شرمناک واقعات کی روک تھام کو یقینی بنایا جا سکے اور دنیا بھر میں بین المذاہب ہم آہنگی کے ذریعے ایک پر امن ماحول پیدا کیا جا سکے۔ مگر افسوس کہ عالمی برادری تا حال اپنی روایتی ہڈدھرمی اور دہرے معیار سے کام لیتے ہوئے اس عمل کو روکنے کے بجائے ایسے عوامل کی حوصلہ افزئی کر رہی ہے۔ان تمام تر مذمتوں کے باوجود فرانس و ہم نوائوں نے اس اشاعت کو نہ صرف آزادئِ اظہارِ رائے سے تعبیر کیا بلکہ اس اشاعت کے نتیجے میں مرنے والے گستاخوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اس گستاخی کی اشاعت میں ہر سطح پر ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ بات یہیں نہیں رکی بلکہ اس میگزین کی انتظامیہ کو اس شمارے کی اشاعت ساٹھ ہزار سے بڑہا کر تین لاکھ کرنے کیلئے مالی امدا فراہم کی گئی ۔جو کہ یقیناََ اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کا باعث بن رہا ہے۔
انکی بدمعاشی دیکھئے کہ انتہاء پسندی کی ابتداء خود کی جبکہ دہشتگرد ار انتہاء پسند مسلمانوں کو کہتے ہیں۔گستاخوں کی موت پر تو بڑا شور مچایا جا رہا ہے مگر کیا کبھی ان عقل کے اندھوں نے یہ بھی سوچا کہ ان اموات کی وجہ کیا ہے؟ کیوں ان جانوروں کو جہنم رسید کیا گیا؟ اس تنازعہ کی وجہ کیا بنی؟ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جس میں آپ دوسروں کے عقائد کا احترام کرنے کی بجائے انکے کے بنیادی حقوق غصب کرلیں اور بعد میں میں اپنے ان ابلیسانہ افعال کو آزادئِ رائے کا لبادہ اوڑھوادیں؟ کاتبِ حروف کے فہم سے یہ بات بالاتر ہے کہ یہ کیسا آزادئِ اظہارِ رائے ہے جو دوسرے مذاہب کے تقدس کو پامال کر رہا ہے؟ آج ساری امتِ مسلمہ پوچھ رہی ہے کہ کون عالمی امن کو خراب کرنے کی مکروہ کوششیں کر رہا ہے؟ کون دوسروں کے مذہبی عقائدکا احترام کرنے کی بجائے ان کی تضحیک کر رہا ہے؟مگر افسوس کہ ان عقل کے اندھوں کی سوچ اس حد تک مفلوج ہو چکی ہے کہ انکو ایسے معاملات دکھائی نہیں دیتے اور جب کوئی متاثرہ گروہ ایسے واقعات کے ردِ عمل میں کوئی انتہائی قدم اٹھاتا ہے تو پھر چلاتے ہیں کہ مسلمان مار رہے ہیں۔کیوں مسلمانوں کو مجبور کیا جا رہا ہے؟ کون انکو تشدد کی دعوت دے رہا ہے؟
مگر اب شاید انتہاء ہوچکی کیونکہ ایسی گستاخی کوئی پہلی بار نہیں کی جا رہی اوراب اس صورتِ حال میں اگر تو عالمی برادری دنیا میں قیامِ امن کو یقینی بنانہ چاہتی ہے تو ہمارے پاس دو آپشنز ہیں۔نمبر ایک کہ عالمی برادری برابری کی سطح پر ہر طرح کی گستاخانہ اشاعت پر پابندی عائد کرے خواہ وہ کسی بھی مزہب سے متعلق ہو ۔ اور دوسری آپشن یہ ہے کہ اگرمغربی دنیا عقربہ پروری اور اپنے یہودی آقائوں کی محبت میں ایسی گستاخانہ اشاعت پر پابندی نہیں لگا سکتی تو پھر ایسی اشاعت کے نتیجے میں ہونے والے ہر قسم کے نقصان پر وا ویلا کرنا بند کر دے۔ کیونکہ اگر یہودیوں کو آزادئِ اظہارِ را ئے کے کاحق کے نام تشدد کو فروغ دینے کا حق ہے تو پھر یہی حق باقی تمام طبقات بھی محفوظ رکھتے ہیں۔
تحریر: حافظ محمد فیصل خالد