اسلام آباد: سینیٹ نے سوشل میڈیا پر موجود گستاخانہ مواد کی مذمت اور اس گستاخی میں ملوث افراد کے خلاف سخت ایکشن کو یقینی بنانے کے لیے متفقہ طور پر قرارداد منظور کرلی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 2955 (سی) کے تحت کارروائی کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر متنازع مواد اَپ لوڈ کرنے والے افراد کے خلاف ایکشن لیا جائے جبکہ حکومت ایک ایسا باقاعدہ نظام تشکیل دے جس کے ذریعے ملک میں سوشل میڈیا پر متنازع مواد کی گردش پر نظر رکھی جاسکے۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما کامل علی آغا کی جانب سے پیش کی گئی اس قرارداد کی قائد ایوان راجا ظفر الحق اور قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے بھی حمایت کی۔
یہ بھی پڑھیں: گستاخانہ مواد: تعاون نہ کرنے والی ویب سائٹس کی بندش کا عندیہ
قرارداد میں یہ واضح کیا گیا کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور آئین پاکستان کے تحت تمام رسول و انبیاء اکرام، اسلام کی مقدس شخصیات، آخری نبی حضرت محمد ﷺ، ان کے اہل و عیال اور تمام ساتھیوں کی عزت و تکریم کرنا ضروری ہے۔ایوان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ چند گمراہ افراد قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گستاخی کے مرتکب ہورہے ہیں تاکہ ملک میں افراتفری کی فضا پیدا کی جاسکے۔قرارداد میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اسلام نے ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی فراہم کی ہے تاہم یہ آزادی بےلگام نہیں۔خیال رہے کہ اس سے قبل کچھ سینیٹرز معاملے کے حل کے لیے ملک میں سوشل میڈیا پر پابندی کی تجاویز بھی دے چکے ہیں۔قرارداد پیش کرنے کی اجازت طلب کرتے ہوئے کامل علی آغا نے تاسف کا اظہار کیا اور کہا کہ چند ہفتوں سے سوشل میڈیا پر کئی گستاخانہ پوسٹس گردش کررہی ہیں۔
مزید پڑھیں: سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی گستاخی پر مقدمہ درج
قانون سازوں کا کہنا تھا کہ اگر اس معاملے میں ملوث افراد کے خلاف سخت ایکشن نہ لیا گیا تو ملک میں افراتفری پیدا ہوسکتی ہے، ساتھ ہی اس بات کی جانب بھی توجہ دلائی گئی کہ حکومت کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جو اس مہم میں ملوث ذرائع کی شناخت میں مدد فراہم کرسکے۔اس موقع پر چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے ایوان کو بتایا کہ ٹوئٹر پر ان کا جعلی اکاؤنٹ تاحال فعال ہے جبکہ وہ اس حوالے سے ڈی جی ایف آئی اے اور چیئرمین پی ٹی اے کو خطوط لکھ چکے ہیں۔رضا ربانی کا کہنا تھا کہ انہیں آگاہ کیا گیا ہے کہ اس حوالے سے صرف ٹوئٹر انتظامیہ ہی کچھ کرسکتی ہے۔
قانون سازوں نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ گستاخانہ مواد کی بندش کے لیے متحدہ عرب امارات جیسے طریقہ کار کو اختیار کریں، جبکہ انٹیلی جنس اداروں کے پاس متنازع مواد کے ذرائع تک پہنچنے کی صلاحیت موجود ہے۔چند سینیٹرز کا یہ خیال تھا کہ ایک جانب جہاں گستاخانہ مواد پر نظررکھنا ضروری ہے وہیں معلومات اور اطلاعات کے ذرائع پر بندش عائد نہیں کی جانی چاہیئے۔