جب مایہ ناز مصنفین اور آرٹسٹوں نے اکیڈمیوں کی طرف سے عطا کیے جانے والے اعزازات واپس کر دیے تب یہ سوال پیدا ہوا کہ آخر انھوں نے یہ کام پہلے کیوں نہیں کیا بالخصوص ایمرجنسی کے موقع پر۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مصنفین اور آرٹسٹ بہت حساس لوگ ہوتے ہیں وہ اپنا ردعمل اس وقت ظاہر کرتے ہیں جب وہ یہ محسوس کرتے ہیں اور جس طرح محسوس کرتے ہیں۔ اصل میں یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ دیکھے کہ ان لوگوں نے ایسا کیوں محسوس کیا اور وہ کیا وجوہات تھیں کہ یہ مایہ ناز لوگ اپنے اعزازات واپس کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جواہر لعل نہرو کی بھانجی نیانترا سہگل جس نے سب سے پہلے اپنا ایوارڈ واپس کیا کہتی ہیں کہ بی جے پی کی حکومت میں اختلاف رائے کی گنجائش بہت سکڑ گئی ہے۔
ہندی زبان کے شاعر من موہن نے اپنا ایوارڈ واپس کرتے ہوئے اکیڈمی کے حکام کو لکھا ہے کہ اختلاف رائے اور آزادی اظہار کو کچلنے کی کوششوں کا اندازہ دانشور مصنفین نریندر دابھولکر‘ گویند پنساری اور ایم ایم کلبورجی کے حالیہ قتل سے ہوتا ہے جو کہ نہایت دلخراش واقعات ہیں۔ بھارت کو دانشوروں کی طرف سے احتجاج کا کافی تجربہ حاصل ہے جب کہ حال ہی میں موجودہ صورت حال کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اکیڈمی کے ایوارڈز اور انعامات واپس کر دیے گئے ہیں۔ خود میں بھی اپنا ایوارڈ ہریانہ ساہتیا اکیڈمی کو واپس کر رہا ہوں‘‘۔یہ بات مصنف نے اپنے مکتوب میں لکھی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت میں فرقہ ورانہ افراتفری اور نفرت کی بنا پر کیے جانے والے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عدم تحفظ اور تشدد کے واقعات بھی ملک میں فروغ پذیر ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں تشویش کی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ سیاسی لیڈر اس صورت حال کو مزید خراب کر رہے ہیں۔ حکومت الٹا مصنفین اور آرٹسٹوں کی بے عزتی کر رہی ہے۔ آزادی اظہار جمہوریت کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اگر اس کی جانب سے غفلت برتی جائے تو جمہوریت کی تمام عمارت منہدم ہو سکتی ہے۔ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ یہاں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ دم گُھٹنے کی کیفیت نریندر مودی کی حکومت کے آنے کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ اس حکومت میں اختلافی رائے کا اظہار کرنے سے لوگ ڈرتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ہندو کمیونٹی میں تعصب کا پہلو بہت زیادہ نمایاں ہو رہا ہے اور ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جو سیکولر ازم کی روح کے منافی ہیں جب کہ اقلیتوں کے ذہن میں ڈر اور خوف اجاگر کیا جا رہا ہے۔ ’’ددری‘‘ میں ہونے والا واقعہ بہت ہی شرمناک ہے۔
ایک مسلمان نوجوان کو مار مار کر ہلاک کر دیا گیا کیونکہ اس کے بارے میں شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس نے اپنے فریج میں بیف (بڑا گوشت) رکھا ہوا ہے۔ یہ محض افواہ تھی جو کہ بعدازاں غلط ثابت ہوئی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آیا کسی کو بیف کھانا چاہیے یا نہ کھانا چاہیے تو یہ محض ذاتی پسند نا پسند کا معاملہ ہے۔ اس نکتہ نظر کی تو سپریم کورٹ آف انڈیا نے بھی توثیق کی ہے۔ اقلیتوں میں سے زیادہ تر لوگ بیف نہیں کھاتے کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ اس طرح فساد پیدا ہو سکتا ہے اور اسی وجہ سے ہندو لوگ سور کھانے سے اجتناب کرتے ہیں حالانکہ ان کے مذہب میں اس قسم کی کوئی مناہی نہیں ہے بلکہ وہ صرف مسلمانوں سے تعلقات کی تکریم کی وجہ سے پورک (خنزیر) نہیں کھاتے۔میں تھوڑے سے وقت کے لیے لندن میں بھارت کا ہائی کمشنر بھی رہا ہوں۔ برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے دل میں بھارت کے لیے بہت عزت و احترام تھا۔
ایک مرتبہ تھیچر نے مجھے بتایا کہ بھارت پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہے ۔ تھیچر نے مجھ سے پوچھا کہ آخر میں بھارت کی اس کامیابی کو جس بات سے منسوب کرتا ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ بھارت میں ہم چیزوں کے بارے میں صرف سیاہ اور سفید کے طور پر ہی دیکھتے بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاہ اور سفید کے درمیان ایک طویل رنگ یعنی سرمئی بھی ہے۔ مگر بدقسمتی سے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا نظریہ اجتماعیت کے فلسفے کے متضاد ہے مثلاً ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھتری کے حالیہ تبصرے کو دیکھا جائے جو ملک کے اخبارات میں شایع ہوا ہے۔ منوہر لال کا کہنا ہے کہ مسلمان جب تک چاہیں بھارت میں چین سے رہ سکتے ہیں مگر انھیں بیف کھانا ترک کرنا ہو گا کیونکہ گائے کو بھارت میں تقدس کا درجہ حاصل ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہریانہ کے وزیراعلیٰ کے ان ریمارکس پر کانگریس پارٹی نے سخت غصے کا اظہار کیا ہے اور اسے بھارتی جمہوریت کے لیے صدمہ کا مقام قرار دیا ہے جب کہ بی جے پی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہریانہ کے وزیراعلیٰ کے الفاظ کو بدل کر شایع کیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ کھتری نے خود بھی اپنے ریمارک کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اول تو میں نے ایسا کہا ہی نہیں اور اگر پھر بھی کسی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو میں وہ الفاظ واپس لیتا ہوں اور افسوس بھی ظاہر کرتا ہوں۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ بی جے پی نے وزیراعلیٰ کھتری کے الفاظ سے خود کو علیحدہ کر لیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ان کی پارٹی کا موقف نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی پارلیمانی امور کے وزیر ایم وینکایہ نائیڈو نے بھی بیان جاری کیا ہے کہ وزیراعلیٰ کھتری کے الفاظ کا پارٹی کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں تائیڈو نے مزید کہا کہ میں مسٹر کھتری سے بات کروں گا اور انھیں سمجھاؤں گا کیونکہ کسی کے کھانے پینے کی عادات کو مذہب کے ساتھ جوڑنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
کھانا پینا کسی بھی شخص کا ذاتی فعل ہے۔لیکن میرے لیے حیرت کی بات یہ تھی کہ نائیڈو نے ددری والے واقعہ کو ریاستی پالیسی کا حصہ قرار دیدیا اور کہا کہ چونکہ یہ امن و امان کا معاملہ تھا لہٰذا اس کی ذمے داری اترپردیش کے وزیراعلیٰ اکھلیش یادو پر عائد ہوتی ہے جن کا تعلق سماج وادی پارٹی کے ساتھ ہے لہٰذا اس کا الزام بی جے پی پر عائد کرنے کے بجائے سماج وادی پارٹی میں سے پوچھنا چاہیے اس کا الزام بی جے پی پر عائد نہیں ہو سکتا جس کی مرکز میں حکومت ہے۔ جہاں تک مصنفین اور آرٹسٹوں کے تمغے اور میڈل واپس کرنے کا تعلق ہے تو ان کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کے خلاف ایک سوچی سمجھی مہم کا حصہ ہے تاکہ حکومت کو بدنام کیا جائے اور وزیراعظم مودی کی ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کی جو کوششیں ہیں ان کی طرف سے توجہ ہٹائی جا سکے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)