تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان
پاکستان بنایا تو غریب مسلمان اور کلمہ گو کے نام پر تھا لیکن اس پر قابض سرمایہ دار، چو ہد ری،ڈکٹیٹر ،سود خور،ڈاکو ،اور اس سے بھی بڑھ کر قا تل اور عسکر ی ونگ کے سرپر ست پا کستان پا رلیمنٹر ین،قو می و صو بائی اسمبلی کے ممبران بن کر پا کستان کی غر یب و سادہ لوح عوام کے قسمت کے فیصلے کرتے کر رہے ہیں غر یب ملا زمین جس میں عام کلر ک سے لے کر پندرہ سے سولہ گریڈ تک اپنی تر قی اور تنخواہ کے بڑھا نے کے لیے حکمران جما عت سے حق ما نگتے ہیں ان کی تنخواہ و مر اعات نہیں بڑھا ئے جا تے مجبور قو می و صو بائی اسمبلی کے باہر احتجا ج کرتے ہیں ان پر آنسو گیس اور لا ٹھی چارج اور پو لیس سے تشدد کر وایا جا تا ہے جب حالات بے قا بو ہو جاتے ہیں تو انھیں بے وقوف بنانے کے لیے چور نما ئند وں کی شکل میں کمیٹی تشکیل دے دی جا تی پھر بھی ملا زمین کو حق نہیں دیا جاتا تو مجبو را عدالت کا رخ کرتے ہیں لیکن جا ن کی ام ان پا ئو ں تو پا کستان کی عدالتوں انصا ف لینے کے لیے قا رون جتنی دولت ،حضرت عیسی ،و موسی جتنی عمر و حضر ت یعقوب جتنا صبر چاہیے یہ تینوں چیزیں تو نا دارد ہیں البتہ پا کستان پا رلیمنٹ و قو می و صو بائی اسمبلی کا با وا آد م ہی نر الہ ہے اسمبلی ممبران جن کی تنخواہوں میں دو سال قبل اضافہ کیا گیا تھا۔
اب پھر 200فیصد تک اضافہ کرنے کی سمری کی باز گشت برائے منظوری گھوم رہی ہے اور بھوک سے بلکتے بچوں کو زہر آلود گولیاں کھلا کرہلاک کرنے اور خود بھی خود کشی کرنے والی اور بچوں سمیت دریا میں ڈوب مرنے والی خواتین کے واقعات دماغ میں ہتھوڑے مار رہے ہیں۔کہ یا اللہ یہ تیری کیسی بستی ہے اورہمارے حکمران کیا اتنے ظالم ،سفاک اور خود غرض ہیں کہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور ان کے پیٹ اتنے بڑے ہیں کہ بھر نے کا نا م ہی نہیں لے رہے جاگیرداروں، وڈیروں اور نو دولتیے ممبران کی تنخواہوں میںاضافے کی۔حالانکہ یہی ممبران اسمبلی ہیں جو قومی میں الیکشن کمیشن کے رولز کے مطابق 50لاکھ اور صوبائی میں 25لاکھ روپے تک الیکشنی خرچہ کرسکتے ہیں۔
حالانکہ یہ لوگ اپنی سیٹیں بچانے کے لیے اور ہر صورت وکٹری سٹینڈ پر پہنچنے گئے اگرسود خور صنعتکارترین کا کوئی حلقہ لودھراں جیسا ہو تو ایک ارب کا خرچہ انتخاب جیتنے کے لیے کم ہی ہو گا۔ الیکشن کمیشن کو اگر گھر کی لو نڈی بن جائے اور ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتاکہ مال ادھر بھی لگ ہی جاتا ہے۔ ممبران اسمبلی جیتنے کے فوری بعد حرا م دو نمبر دھندہ اور ھیرا پھیریوں سے بنک بیلنس ڈبل کی بجائے ایک سو گنا ہ اضا فہ کرکے اپنی تجور یاں بھر لیتے ہیں اگر کسی جر م میں نیب یا کو ئی ادارہ ان پر ہا تھ غلطی سے ڈال لے تو اس ادارے کا اعلی افسر یاتو تبدیل ہو جاتا ،قتل ہو جاتا یا پھر اس کو سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے، قوانین بنانے کے لیے غریب ،خدا ترس ،باکرداراوراہل افرادمنتخب کر نے کے لیے سب حکمران اور سیاسی پا رٹیوںکو ملک غداری کے تمغہ سے نواز کر نیست و نا بود یاپھر ملک بدر کر دینا چاہیے اور اس کا م کے لیے ہٹلر جیسے شخص کو آنا یاپھر لا نا ملک کو بہتری کی طرف گامز ن کر نے کے لیے اشد ضروری سمجھتا جا رہا ہے۔
انتخابات کی مہم چلانے کے لیے حکومت خود یونین کو نسلوں کی سطح پر اجتماعی جلسہ ہائے عام کا اہتمام کرے تمام خرچہ حکومت کے ذمہ ہو تمام امیدواروں کے منشور ،دستور ،پروگرام چھپوا کرفو ج یا پھر ہٹلر اپنی ٹیم سے تقسیم کروائے ، انتخابات کے دن ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچانا بھی حکومت کے ذمہ ہوکوئی امیدوار کسی ووٹر کو لالچ دیتایا چائے کا کپ بھی پلاتا پکڑا جائے تو خو د بخود نااہل قرار پائے۔ پھر کوئی جیتا ہوا امیدوارایک دھیلے کی بھی کرپشن کرتا پایا جائے تو پھر اس کی کم ازکم سزاشہر کے مین چوک پرالٹا لٹکانا ہی ہو نی چاہیے۔ اس طرح سے حکومتی اداروں کی اصلاح کے لیے بھی ایسے ہی قوانین مرتب کرلیے جائیں نہ صر ف عوام، بلکہ پوری پا کستانی قوم آنے والی نسلوں تک کا بھلا ہو گااور کرپشنی چوہے بھی دم دبا کرگہری بلوں میں گھس جانے پر مجبور ہوں گے ۔کہ نہ نو من تیل ہو گانہ رادھا ناچے گی نہ ان کا سرمایہ انتخاب پر لگے گااور نہ ہی وہ پورا کرنے کے چکر میں لوٹ کھسوٹ کریں گے۔
مگر عوامی رائے کے مطابق ایسا موجودہ یا سابقہ حکمرانوں کے اقتداروں میں تو ممکن ہی نہ ہے کہ یہ سبھی ظالم جاگیرداروں ،نو دولتیے سود خور سرمایہ داروں ، کرپٹ وڈیروں اور مظلوم مزدروں کا خون شرابوں میںملا کر پی جانے والے صنعتکاروں کے اکٹھ ہیں اور نام سیاسی جماعت رکھ چھوڑا ہے ۔بے پیندے کے لوٹوں کی طرح اِدھر اُدھرلُڑھکتے رہتے ہیں ۔جتھے دیکھی توا پرات اوتھے کٹی ساری رات کہ مفادات کے غلام اور پیسوں کے پجاری ہیں۔”سیاسی”کہلوانے کی وجہ سے ان کی پکڑ دھکڑ بھی نہیں ہو سکتی اب اگر زرداری 15ملین ڈالرز اور شریف برادران اس سے تہائی رقوم باہر کے بنکوں میں جمع کروائے بیٹھے ہیں تو ان سے کون سی عدالت یا قانون واپس منگوا کر سرکاری خزانو ں میں جمع کرواسکتا ہے۔
کرپٹ لادین بیورو کریسی بھی اربوں ہڑپ کر رہی ہے اور ایک دوسرے کے پشتی بان اور محافظ بنے ہوئے ہیں ۔واضح حل یہی ہے کہ گلی کوچوں گوٹھوں چکوں سے ہٹلر اور اما م خمیمی کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے پسے ہوئے غیرت مند پاکستانی باہر نکلیں اور بذریعہ بُلٹ نہیں بلکہ بذریعہ بیلٹ ان سے اقتداری کنجیاں چھین کرخدا کی زمین پر خدا کی حکومت کا جھنڈاگاڑدیں۔جس میں ہر طرح کی کرپشن ،رشوت ،مہنگائی ،بیروزگاری ،ناانصافی ،ڈکیتی ،دہشت گردی غنڈہ گردی ،اغوا برائے تاوان کاتصور بھی نہ ہو اس کے لیے ہمیں ایک قو م ہو نا پڑے گا تفرقوں اور گر ہوں اور گروپوں اور بر اداری الز م کی سیاست کر نے والوں کی سیاست کو زند ہ زمین میں گاڑنا ہو گا۔
میں کسی تخلیاتی حکمرانی کا ذکر نہیں کر رہا۔کیوںکہ ایسا ممکن ہے لاکھوں مائوں ،بہنوں ،بیٹیوں کی قربانی دیکر کلمہ کی بنیاد پر پاکستان بنانے کے وعدوں کی تکمیل ہر صورت ممکن بنا ڈالیں ۔اب تقریباًستر سال سے ہم خون چوسنے والی جونکوں کی حکمرانی اور نام نہاد جمہوری و غیر جمہوری مارشل لائی ڈکٹیٹروں کا مزہ بھی چکھ چکے ہیں اندرا گاندھی نے تو فوراً پاک سرزمین کے ٹکڑے ہوتے ہی کہہ ڈالا تھا کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو بحر ہند میں غرق کرڈالا ہے اور سکھ و ہندو غنڈے اور راء کے ایجنٹ ہماری اٹھائیس ہزارعفت مأب بچیوں کو اٹھا کر لے گئے ۔اور ہمارے حکمران کر سی کے نشہ میں مست ایو نوں میں مزے کرتے رہے۔اب ایسے ہی حکمرانوں اور ہندو بنیوں سے امیدیں وابستہ کرنااپنے پائوں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہو گا۔
ویسے بھی ساری قوم کام چور بنی ہوئی ہے اور یہود ونصاریٰ نے مختلف قسم کے نشوں پر نوجوان نسل کو لگا ڈالا ہے ۔جا ن کی اما ن پا ئو ں تو فوج بھی آرام طلب اور ایئر کنڈیشنڈ کی عادی بنی ہوئی ہے ایسے عوام و خواص کیا جہادی کام کریں گے کہ اب یہ ممکن ہی نہ رہا ہے۔ ہمارے ملک کی 68سالہ تاریخ میں جتنے بھی حکمرا ن و ڈکٹیٹر آئے انھوں نے پا کستانی عوام کو سہا نے خواب اور سبز باغ دیکھا کر اقتدار سنبھالا اور خوب 20%سے40% پا نچ سال ،دس سال ،گیارہ سال اقتدار کرکے بیرونی بنکوں میں جمع رقوم پر عیاشیاں کرنے کے لیے اپنے خرید کردہ بیرونی پلازوں اور فلیٹوں میں منتقل ہو گے۔
کچھ ڈکٹیٹر بلی کی طرح 10چوہے مار کر حج پر چلے جانے والے محاورا کے مطابق عدالت میں صاف و شفاف بننے برائے نا م عدالتی کیسوں کی میڈیا پر زینت بنے ہو ئے ہیں ملک کی جان چھوڑوانے کے لیے کسی مسیحا چائے وہ ڈکٹیٹر ہو محمود غز نو ی،محمد بند قاسم یاپھر ہٹلر اور امام خمینی جیسا مر د مجا ہد ملک پا کستان و اس کی عوام کوڈھو نڈنا ہو گا۔
تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان