تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
آج مسلسل دوسری رات تھی کہ نیند نہیں آرہی تھی، اِس میں کوئی شک نہیں کہ میں دن رات بہت زیادہ مصروف ہوتا ہوں لیکن بچپن سے آج تک یہ اﷲ تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ میں بستر پر لیٹا نہیں اور سویا نہیں، میں نے جب بھی سونے کی کوشش کی ذہن کو خیالات سے پاک کیا اور سو گیا۔ لیکن یہ مسلسل دوسری رات تھی کہ مجھے نیند نہیں آرہی تھی میں مسلسل سونے کی کوشش کررہا تھا میں گھنٹوں کروٹیں بدلتا ہوں’ بستر تبدیل کرتا ہوں ‘ایسے کمرے میں سونے کی کوشش کی جہاں پر شور بلکل نہیں، نرم بستر، خالی کمرہ اور AC کی خوشگوار کولنگ لیکن نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور’ میں نے سانس اور یوگا کی بہت ساری ورزشیں بھی کیں۔
دماغ اور جسم کو ریلیکس بھی کیا لیکن نیند بہت دور ، آنکھوں اور دماغ میں خشکی اور جلن جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیونکہ اُس کو ریسٹ نہیں مل رہی تھی، تھکاوٹ کا شدید احساس لیکن جسم نیند کی حالت میں نہیں جارہا تھا۔ آخر کار تنگ آکر زندگی میں پہلی بار میں نے نیند آور گولیاں کھا کر سونے کی کو شش کرتا ہوں’ گولیوں کے اثر سے میں نیم غنودگی کے دریا میں اتر جاتا ہوں لیکن ہر دس منٹ بعد یا آدھے گھنٹے بعد پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے، میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتا ہوں گولیوں کا اثر جلد ختم ہوگیا اور پھر میری آنکھ کھل گئی۔ اب میں نے ہمیشہ کی طرح کھلے آسمان کے نیچے جانے کا فیصلہ کیا میری یہ پرانی عادت ہے کہ جب بھی میں بہت پریشان ہوتا ہوں تو یا تو کسی پارک یا باغ میں چلا جاتا ہوں۔
جہاں درختوں میدانوں اور پھولوں کے درمیان خود کو بہتر محسوس کرتا ہوں اب کیونکہ رات کا آخری حصہ گزر رہا تھا اِس لیے میں گھر کی چھت پر آگیا آسمان پر چاند اور ستارے چمک رہے تھے’ میں کرسی پر بیٹھا اور آسمان کی طرف دیکھنے لگا اور پروردگار سے دعا اور مدد کے درمیان مجھے بار بار اُس بے بس مجبور لاچار خوف زدہ نوجوان خوبصورت لڑکی کا چہرہ یاد آرہا تھا اُس کی آنسوئوں میں ڈوبی آنکھیں جو رو رو کر سوجھ چکی تھیں، اُس کی آنکھوں میں دعا التجا مدد کی پکار تھی اُس کا چہرہ غم میں ڈوبا مدد مدد پکار رہا تھا اور میں بے بسی کی تصویر بنا اُس کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنی داستان غم سنا کر چلی گئی لیکن مجھے ایسا روگ اور غم دے گئی کہ میں دو دن سے انگاروں پر لیٹ رہا تھا، میں نے ساری زندگی کسی انسان سے نفرت نہیں کی مجھے اﷲ سے عشق ہے اور اﷲ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز سے محبت ہے۔
ہر دکھی بے بس انسان کو دیکھ کر شدت سے مجھے خدا کی یاد آتی ہے اور جو مجھ سے ہو سکتا ہے اس کی مدد کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن اِس کیس میں مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس طرح اُس حوا کی بیٹی کی مدد کروں۔ میں جو انسانوں سے پیار کرتا ہوں آج مجھے انسانوں کا یہ روپ بہت برا لگا میرا دل کررہا تھا کہ اِن کو اُڑھا کر جہنم کے شدید ترین حصے میں پھینک دوں اور اُوپر سے ڈھکن رکھ کر جہنم کو بند کر دوں، اِن کو آتش فشاں کے دہا نے پر رکھ دوں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ انسان ہی انسان پر ظلم کرتا ہے لیکن اِیسا ظلم کہ دل دماغ پگھلنا شروع ہو جائے سانسیں رکنی شروع ہو جائیں اور انسان کا وحشی اور قاتل بننے کا دل کرے اخلاقیات کی ساری حدیں کراس کرنے کو دل چاہے’ ہمارے پیارے آقا نبی کریم ۖ نے بیٹیوں کو زندہ زمین میں گاڑنے کو سختی سے منع اور ظلم عظیم قرار دیا ہے۔
لیکن ہم مسلم معاشرے میں آج بھی یہ گھنائونا کام مختلف طریقوں سے صبح و شام کر رہے ہیں ہمارے ہی معاشرے میں کچھ ظلم اور بدکردار لوگ حوا کی بیٹیوں کے ساتھ ظلم و بربریت کا یہ ظالمانہ کھیل کس آزادی اور ڈھٹائی سے کھیل رہے ہیں، ہمارے اندھے قانون میں اتنی جان نہیں کہ ایسے لوگوں کو کیفرِکردار تک پہنچا سکے، ایسی مجبور بے بس لاچار خوف زدہ بچیوں کو سہارا دے سکے ، پتہ نہیں ہمارا یہ عوام کُش نظام کب تبدیل ہوگا۔ کب انصاف اور قانون اتنا طاقتور ہوگا کہ مجبور کی داد رسی ہو سکے، اِس ظلم کی داستان کچھ اِس طرح سے ہے۔میں روزانہ کی طرح دفتر سے شام ڈھلے گھر آیا تو گھر کے برآمدے میں ایک نوجوان خوبصورت لڑکی بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھی، میںاُس کے سامنے بیٹھا اور سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھنے لگا۔
اُس نے پہلا سوال ایسا کیا کہ میری ساری تھکاوٹ سے بھرپور حسیات اور چوکنا ہو گئیں، وہ کہنے لگی سر میںنے خودکشی کرنی ہے موت کا کوئی ایسا طریقہ کہ میری روز محشر پکڑ نہ ہو، سر سُنا ہے خودکشی حرام ہے ، نہیں سر میں روز روز کے مرنے سے ایک ہی دن مر کر اِس جہنم سے آزادی چاہتی ہوں جس میں آجکل میںزندہ رہ رہی ہوں۔ میرے سامنے تقریباً روزانہ ہی ایسے لوگ آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے خودکشی کرنی ہے اور مجھے ہمیشہ کی طرح اُن پر غصہ آتا ہے، لیکن اِس لڑکی کی الم ناک داستان سننے کے بعد مجھے اِس پر غصہ نہیں آیا، رحم ، محبت، شفقت اور بہت ترس اور دکھ ہوا۔ یہ لڑکی اپنے ماں باپ کے ساتھ کویت میں پچھلے بیس سال سے رہ رہی تھی، ماں باپ پڑھے لکھے اور بچوں سے محبت کرنے والے ، یہ جوان ہوئی تو اِس کو پڑھنے کے لیے پاکستان بھیج دیا۔
اِس نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور اپنی پڑھائی شروع کردی ‘یونیورسٹی میں ہی ایک لڑکے سے اِس کی دوستی ہوگئی جو بعد میں محبت اور عشق میں بدل گئی۔ لڑکی کی آنکھوں میں مستقبل کے بہت سارے خواب تھے، یہ دن بدن اُس کی محبت میں ڈوبتی چلی گئی، اب لڑکے نے اِس کو پرپوز کیا اِس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا ، لڑکے نے اپنی چکنی چوپڑی باتوں میں اِس طرح الجھایا کہ اِس نے ماں باپ سے کہا کہ میں نے فوری شادی کرنی ہے، ماں باپ نے بہت سمجھایا لیکن یہ نا مانی اور لڑکے والوں کا پتہ بھی نہ کرایا، اور شادی کرلی گھر والے بہت ناراض تھے، لیکن اُسی نے ساری ذمہ داری اپنے سر لی کہ میں کبھی شکایت نہیں کروں گی، اور ہر حال میں گزارا کروں گی۔
اِس کے گھر والوں نے اِس کی شادی کی اور واپس کویت چلے گئے یہ آنکھوں میں ہزاروں سپنے سجائے خوشی خوشی پیا گھر آگئی، یہ شادی کی خوشیوں میں اِس طرح کھوئی کہ ایک ماہ گزر گیا اورپتہ بھی نہیں چلا، اِس دوران اِس نے محسوس کیاکہ رات کو اِن کے گھر میں بہت سارے مشکوک کردار کے لوگ آتے ہیں، اِن کے گھر میں 10 کے قریب نوجوان لڑکیاںتھیں جن کے بارے میں بتایا گیا کہ رشتے دار ہیں پڑھنے کے لیے آئی ہیں۔ اِسی دوران اِس کا میاں کسی دوسرے شہر کام کے لیے گیا تو رات کو کوئی مرد شراب کے نشے میں دھت اُس کے کمرے میں آگیا۔
اِس نے رو رو کر اپنی جان اور عزت بچائی، اگلے دن گھر میں موجود لڑکیوں میں سے ایک نے اِس کو بتایا کہ یہ جسم فروشی کا دھندہ کرتے ہیں، یونیورسٹی اور کالجوں میں لڑکے داخل ہوتے ہیں خوبصورت لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر یہاں لاتے ہیں کچھ دن یہاں رہ کر لڑکا پیسے لے کر بھاگ جاتا ہے۔ یہاں اِن لڑکیوں کی غلط فلمیں بنائی جاتی ہیں پھر اُن کو بلیک میل کر کے جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ آگے کی داستان اتنی الم ناک ہے کہ میرا قلم لکھنے سے عاجز ہے، کاش نوجوان لڑکیاں اندھی محبت میں غلط فیصلے نہ کریں، اپنی داستان غم سنانے کے بعد وہ لڑکی چلی گئی لیکن مجھے غم کا مجسمہ بنا گئی۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956