تحریر : فاطمہ خان
بہار کی آمد کے ساتھ ہی شادیوں کی تقریبات میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو شروع ہو جاتا ہے ایسے ہی ہمیں بھی ایک شادی کی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا, باقی رسومات کی حد تک تو تقریب ٹھیک تھی مگر جیسے ہی کھانا کھانے کا مرحلہ آیا تو یوں لگا کہ جیسے لوگوں کے اندر کا حیوان سامنے آ گیا ہو جس طریقے سے کھانے کے ساتھ انصاف کیا گیا وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا.ہم نے بھی خیر کسی نہ کسی طرح کھانا کھا ہی لیا مگر یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ لوگوں نے کھانا کھایا کم اور ضائع زیادہ کیا ہے۔
بحثیت قوم کھانا ضائع کرنا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے.ہماری ایک جاننے والی روبینہ آنٹی کھانے کے ساتھ خوب انصاف کیا کرتی ہیں اور اکثر شادیوں میں کھانا لگنے سے پہلے ہی وہ اپنی آل اولاد سمیت مختلف محاذوں مطلب میزوں کے پاس کھڑا کر دیتی ہیں پھر تو بس اشارہ کھلنے کی دیر ہوتی ہے وہ اپنے خاندان کے ساتھ کھانے پر حملہ کر دیتی ہیں.کسی اور کو کھانا ملے نہ ملے ان کا خاندان خوب سیر ہو کر کھانا کھاتا ہے اور اس سے زیادہ کھانا ضائع کرتا ہے۔
کھانا کھانے کی حد تک تو وہ اپنے نام کی ایک ہی ہیں مگر کھانا ضائع کرنے کے معاملے میں ہم میں سے اکثر لوگ روبینہ آنٹی جیسے ہی ہیں اور اس معاملے میں ہم نے ترقی پی کی ہے تنزلی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.ایک سروے کے مطابق ایسی ہی تقریبات میں ہم سالانہ تیس سے چالیس فیصد کھانا کر دیتے ہیں, یہ ہی کھانا اگر کسی غریب کے منہ میں چلا جاے تو بہت سے لوگوں کا بھلا ہو جاےمگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔
ہم پاکستانیوں کو ایک فراخ دل قوم کہا جاتا ہے شاید اسی لئے ہم کھانا ضائع کرنے کے معاملے میں بھی خوب فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ایسا صرف شادی کی تقریبات میں نہیں ہوتا بلکہ کسی قسم کی کوئی تقریب ہو ہم اپنی روش نہیں بدلتے اور ایسے کھا رہے ہوتے ہیں کے خدانخواستہ وہ کھانا ہماری زندگی کا آخری کھانا ہو۔
خاص طور پر سیاسی پارٹیوں کی تقریبات میں کھانے کی تقسیم کے وقت ایک عجیب قسم کا طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں کھانا لوگوں کے پیٹوں میں کم اور زمین کی زینت زیادہ بنتا ہے.یہ وہ ہی سیاسی جماعتیں ہیں جن کے منشور میں تنظیم کا بار بار ذکر ہوتا ہے مگر ان کی اپنی تقریبات میں تنظیم کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔
ایک شادی ہال کے مالک کے مطابق قہ روزانہ کتنا ہی ایسا کھانا اکھٹآ کرتے ہیں جو لوگوں کی لاپرواہی کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے.ان کے مطابق اس بات کا انحصار تقریب کے انتظامات پر بھی ہوتا ہے.اگر انتظامات اچھے ہیں اور تقریب میں کوئی بدنظمی نہیں ہے تو کھانا بھی کم ہی ضائع ہوتا ہے.کھانا ضائع کرنے کی بیماری صرف ہمارے ہاں کے لوگوں کو نہیں ہے بلکہ بہت سی ترقی یافتہ اقوام بھی اس بیماری میں مبتلا ہیں مگر ان اقوام نے اس بیماری کے خاتمے کے لئے مختلف انتظامات کر رکھے ہیں۔
امریکہ میں ایک تنظیم فوڈ بینک کے نام سے قائم ہے جو سارا ضائع ہونے والا کھانا اکھٹا کر کے مختلف فلاحی اداروں کو بھجواتی ہے اس طرج کے کچھ ادارے ہندوستان میں بھی قائم ہیں. ہمارے ملک میں بھی ایسی تنظیمیں قائم کرنے کی ضرورت ہے جو اس کھانے کو قابل استعمال بنا سکیں,ہمارے ہاں غربت کا گراف بھی بڑھتا بڑھتا جا رہا ہے اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں ایک وقت بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا,بہت سے بچے بھی خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔
ایسے میں بے دریغ کھانا ضائع کرنا بھی ایک افسوس ناک امر ہے.اس طریقے سے ہم رزق کی بے حرمتی کر کے اپنے رب کو ناراض کر رہے ہیں ہمارے مزہب میں کھانا کھانے کے جو آداب بیان کئے گئے ہیں اگر ان میں سے ہم چند ایک بھی اپنا لیں تو,بہت حد تک یہ مسلہْ حل ہو جاے گا نعمتوِں کی قدر کرنا سیکھیں شائد ایسا کرنے سے ہم مشکلات کے بنھور سے نکل آئیں..کاش ایسا ہو جاے۔
تحریر : فاطمہ خان