تحریر : طارق حسین بٹ
١٦ دسمبر ٢٠١٤ انسانی تاریخ میں ایک سفاک ترین دن کی حیثیت سے ہمیشہ یاد گار رہے۔یہ وہی دن ہے جب آرمی پبلک سکول پر چند دہشت گردوں کے حملوں کے نتیجے میں ١٥٤ ننھے فرشتوں کو جامِ شہادت نوش کرنا پڑتا تھا ۔ننھے فرشتوں کی اس قربانی نے پورے پاکستان کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا تھا کیونکہ ان ننھے فرشتوں کو ہر پاکستانی نے دل سے اپنا لختِ جگر تسلیم کر لیا تھااوراپنے لختِ جگر وں کی موت انسانی اذہان پر جس انداز سے اثر انداز ہوتی ہے بالکل اسی طرح ہر پاکستانی کے ذہن پر ان ننھے فرشتوں کی موت اثر انداز ہو ئی تھی ۔ ضربِ عضب عوام کی اسی سوچ کا شاہکار تھا جس نے شمالی وزیرستان پر فوری یلغار کے ذریعے انسانیت دشمنوں کے گرد گھیرا تنگ کر کے ان کا جینا دوبھر کر دیا ۔دھشت گردی کے سارے اڈے اور سارے ٹھکانے فوجی جوانوں کے بوٹوں تلے روندھے گئے اور دھشت گردوں کو بھاگ کر افغانستان میں پناہ لینی پڑی۔اب وہی افغانستان دھشت گرددں کی محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے جس سے پاکستان آگ کے شعلوں میں لپٹا ہوا ہے۔اس جنگ میں فوجی جوانوں نے جرات و بہادری کی جو مثالیں پیش کیں انسانیت ان پر ہمیشہ فخرو ناز کرتی رہے گی ۔پاکستانی فوج نے ضربِ عضب کی شکل میں اپنے عوام کو امن و سکون کا تحفہ دیا جس سے فوج ایک دفعہ پھر تمام پا کستانیوں کے دلوں کی دھڑ کن بن گئی اور اس کے سپہ سالار پوری قوم کے نجات دھندہ کے روپ میں سامنے آئے کیونک ضربِ عضب کا آغاز ان کے عزمِ مصمم سے ممکن ہوا تھا۔
ابھی اس واقعہ کو گزرے ایک سال ہی ہوا تھا کہ ایک دفعہ پھر ٢٠ جنوری ٢٠١٦ کو باچہ خان یونیورسٹی پر دھشت گردوں کے حملے نے پاکستانی قوم کو غم و اندوہ کی تصویر بنا دیا۔اس دفعہ کمسن ننھے فرشتوں کی بجائے پاکستان کے نوجوانوں کو تختہِ مشق بنا یا گیا۔نوجوان جو کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں انھیں خاک و خون میں نہلا دیا گیا تا کہ نوجوان نسل خوفزدہ ہو کر تعلیمی میدانوں سے راہِ فرار اختیار کرلے اور یوں جہالت کی وہ تاریک دنیا جہاں سے دھشت گرد اپنا ایندھن تلاش کرتے ہیں پاکستان پر مسلط کی جا سکے لیکن پاکستان کے غیور بیٹے دھشت گردوں کے ان سفاک ہتھکنڈوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہیں اور علم کی عظمت اور اس کے فیوض و برکات سے ثمر بار ہونے کے لئے پوری قوم کو عزم و حوصلہ عطا کر رہے ہیں۔١٦ دسمبر ٢٠١٤ کو ننھے فرشتوں کے لہو نے جو پیغام دیا تھا ٢٠ جنوری ٢٠١٦ کا پیغام اس سے مختلف نہیں ہے۔یہ ایسا پیغام ہے جس میں لہو کی پکار ایک ہے۔
لہو کا رنگ ایک ہے ،لہو کی سوچ ایک ہے لہو کی پہچان ایک ہے اور لہو کی ترنگ ایک ہے۔قوم کے نو نہالوں کی یہ للکار آخری دھشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھنے کی قوت عطا کرے گی اور اس جنگ میںان کا لہو قوم کی حیات کی نوید ہو گا نوجوان ایک ہی نعرہ بلند کئے جا رہے ہیں کہ ہمیں اس جنگ کو جاری رکھنا ہے چاہے ہمیں آ گ و خون کے کتنے ہی دریا عبور کرنے پڑیں۔ ہمیں انسانت کی بقاء اور اس کی تکریم ہر حا ل میں مقدم رکھنی ہو گی کیونکہ یہی اسلام کا ابدی پیغام ہے۔اکرمنا بنی آدم کل بھی ایک حقیقت تھا اور آج بھی ایک حقیقت ہے اور ہمارے لہو کا خراج حقیقت کی اسی پیشانی کو مزید نکھار بخشنے اور سنوارنے کا کام دے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکہ اور اس کے حواری اسلام کے نام سے خوفزدہ وہتے ہیں اور اسے بدنام کرنے کا کوئی موقعہ ضا ئع نہیں کرنا چاہتے۔اسلا م کو چند دھشت گرد بدنام کر دیں اس سے بڑی ان کی کوئی خواہش اور کوئی نہیں ہو سکتی ۔اس میں کوئی مبا لغہ نہیں ہے کہ اسلام کی عظمتوں کو اسلام کے یہ نام نہاد نام لیوا ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ساری اسلامی دنیا میں خلفشار کی کیفیت کسی کی پیدا کردہ ہے۔
سفاک گروہوں کی کون پیٹھ تھپتھپاتا ہے؟ کون انھیں اسلحہ اور افرادی قوت مہیا کرتا ہے؟کون انھیں ڈالروں سے نوازتا ہے اور کون ان کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے؟عرا ق ،افغانستان،لیبیا،شام،یمن اور الجزائر اس کی واضح مثالیں ہیں۔لیکن وہ دھرتی جو اس کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح چبتی ہے وہ پاکستان ہے۔١٦ دسمبر ١٩٧١ کو پاکستان کو دو لخت کرنے کے باوجود امریکہ کے سینے میں الائو دہک رہے ہیں اور وہ باقی ماندہ پاکستان کے حصے بخرے کرنا چاہتا ہے۔اس کا ساتھ بھارت دے رہا ہے جس نے دل سے پاکستان کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔پہلے اس نے پٹھانکوٹ سے متعلقہ واقعہ کی دھشت گرد کاروائیوں میں پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش کی لیکن جب بیل منڈھے چڑھتی نظر نہ آئی تو اپنی کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو سبق سکھانے کا منصوبہ بنایا۔بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے جس طرح پاکستان کے خلاف زہر اگلا اور اسے سبق سکھانے کا عندیہ دیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔بھارتی وزیرِ دفاع نے ایک ماہ کے اندر پاکستان کو سبق سکھانے کا جو اعلان کیا تھا باچہ خان یونیورسٹی پر حالیہ دھشت گرد کاروائی اسی تناظر میں بآسا نی سمجھی جا سکتی تھی ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دھشت گرد کاروائی میں بھارتی حکومت ملوث ہے ۔بھارتی منصوبوں سازوں کو ہمیشہ سے امریکی اشیر واد حاصل رہی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو بھارت اس طرح کی دریدہ دہنی کا مظاہرہ کبھی نہ کرتا۔جب عالمی ٹھیکیدار بھارت کو شہ دینے پر اتر آئیں تو تو پھر بھارت پھن پھیلائے ناگ کی طرح پاکستان پر ضرور حملہ آو رہو گا۔
یہ الگ بات کے پاکستانی افواج اس ناگ کو اپنے بوٹوں تلے روندھ ڈالیں گئے۔امریکی اشیر واد کے سا تھ اسرائیلی تائید و حمائت بھی بھارتی حکومت کے حصے میں آتی ہے کیونکہ اسرا ئیل بھارت سے بھی زیادہ پاکستان کی عسکری اور ایٹمی قوت سے خوفزدہ ہے۔بھارت تو پھر بھی بڑ ا ملک ہے جو پاکستان کی فوجی طاقت کا مقابلہ کر سکتا ہے لیکن جس دن اسرائیل اور پاکستان ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہوں گئے اسرائیل کو چھٹی کا دودھ یا آ جائے گا ۔اسرائیل کو اندیشہ ہے کہ پاکستان عربوں کی پشت پر کھڑا ہے لہذا وہ کسی لمحے بھی عربوں کی حمائت میں سینہ تان کر میدان میں کود سکتا ہے جس سے اسرائیل کی جنگی برتری کا زعم پارہ پارہ ہو سکتا ہے۔اسے ١٩٧٣ کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستانی شاہینوں کی بسالتیں یاد ہیں جھنوں نے اسرائیلی ائر فورس کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا اور اس کے ناپاک عزائم کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی۔اسرائیل کے خلاف ذولفقار علی بھٹو کا جرات مندانہ اقدام عربوں کے دلوں میں پاکستانی محبت کو پیوست کرنے کا سب سے مضبوط بہتھیار ثابت ہوا تھا جس کی اثر پذیری کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی ختم نہیں ہو سکی۔
عالمِ عرب اب بھی پاکستان کو اپنا سب سے زیادہ ہمدرد اور دوست تصور کرتے ہیں کیونکہ پاکستان نے اپنے عمل سے اپنی دوستی کو ثابت کیا تھا۔دوستی کی اس عظمت کو عربوں کے دلوں میں پیوست کرنے کا سہرا ذولفقار علی بھٹو جیسے عظیم قائد کی قائدانہ صلاحیتوں کا بر ملا اظہار تھا جا کا اعتاف دوست دشمن سبھی کرتے ہیں۔باچہ خان یونیورسٹی پر حملہ پا کستان کے مستقبل پر حملہ ہے اور پاکستانی عوام اور فوج اس حملے کو ناکام بنانے میں کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں۔وہ کٹ توسکتے ہیں لیکن اپنے بیٹوں کے قاتلوں سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔دھشت گردوں کی کمر تو پہلے ہی جنرل راحیل شریف نے ضربِ عضب کے ذریعے توڑ دی ہے لہذا دھشت گردی پاکستان میں آ خری ہچکیاں لے رہی ہے۔فوج اور عوام کا باہمی اتحاد اسے ایک دن شکست سے دوچار کر کے امن کا بول بال کر دے گا اور یوں پاکستان دنیا میں ایک دفعہ پھر امن پسند ملک کی حیثیت سے اپنی شناخت کروانے میں کامیابب ہو جائے گا۔
تحریر : طارق حسین بٹ