تحریر : ماجد امجد ثمر
خون انسانی جسم کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنی اس کے لئے آکسیجن۔ جسم میں خون کا بہاؤ ہی ذندگی کی علامت ہے۔ یوں تو انسانی جسم کے بہت سے ایسے اعضاء ہیں جن کا انسان کسی دوسرے کو عطیہ دے سکتا ہے لیکن خون اپنا ایک الگ نایاب اور منفرد مقام رکھتا ہے۔اور خون کا عطیہ کرنا سب سے ہی آسان عمل ہے بانسبت دوسرے اعضاء کے۔ خون کا عطیہ دینے والے کے چند منٹ کسی کو پوری ذندگی کا وقت دے سکتے ہیں۔ کیونکہ خون ایک انسان کے لئے دنیا میں سب سے قیمتی چیز ہے۔ سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہر انسان کے جسم میں دو یا تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ ہوتا ہے۔جیسا کہ آپ نے بھی اکثر دیکھا ہو گا کہ ایک آدمی ایک ہی وقت میں خون کی دو بوتلیں آرام سے دے دیتا ہے اور طبی لحاظ سے اس کی صحت پر کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ بلکہ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر انسان کو چند ماہ بعد خون دیتے رہنا چاہئے کیونکہ ایسا کرنے سے انسان کا نیا فریش خون بنتا ہے اور اس وجہ سے وہ بہت سی بیماریوں سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
خون کا عطیہ دینے والوں کا عالمی دن ہر سال 14 جون کو دنیا بھر میں منایا جاتاہے۔جس کا اہم مقصد خون کا عطیہ دینے کے بارے عوام میں شعور بیدار کرناہے اور اس کے ساتھ خون کا عطیہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور ان کا شکریہ ادا کرنا ہے۔WHOکی طرف سے پہلی مرتبہ یہ دن 2004ء میں منا یا گیا ۔WHO عالمی ادارہ صحت کی طرف سے عوامی صحت کی جو مہمات چلائی جاتی ہیں اس دن کے بارے میں مہم ان میں سے ایک اہم ذمہ داری ہے۔ہر سال یہ دن مختلف Theme کے ساتھ منا یا جاتا ہے۔ اس سال 2015ء میں یہ دن اس تھیم کے ساتھ “Thank you for saving my life” منایا جا رہا ہے۔اس کا مقصد ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا ہے جواپنے خون کا عطیہ دے کر لوگوں کی ذندگیاں بچاتے ہیں۔ خون کا عطیہ دے کر کسی کو ذندگی کا تحفہ دیں۔پچھلے سا ل تو اس دن کی میزبانی فرانس نے کی اور یوں اس ملک میں اس دن کی اہمیت بارے خاص تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔فرانس کو ایک اور اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ 1950ء سے ہی رضا کارانہ طور پر خون کا عطیہ کرنے بارے آگاہی کی مہم چلاتا آ رہا ہے۔ ہر سال کئی ہزار عورتیں ڈلیوری کے دوران خون کے ذیادہ ضائع ہو جانے اور دوسرا خون کے وقت پر نہ ملنے کی وجہ سے زندگی کھو دیتی ہیں ۔اس لئے اس سال لوگوں میں خون اور خون کی مصنوعات کی بروقت فراہمی بارے زچگی اموات کو روکنے کے لئے شعور بیدار کرنا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں بلامعاوضہ خون دینے والوں کی شرح پاکستان کی نسبت کہیں ذیادہ ہے ۔ایک صحت مند انسان تین ماہ کے بعد آرام سے خون کا عطیہ کر سکتا ہے ۔اس کا کوئی نقصان بھی نہیں ۔لوگوں میںاس بارے خوب آگاہی دلانے کی ضرورت ہے تا کہ ذیادہ سے ذیادہ انسانوں کی جان بچائی جا سکے۔WHO نے تمام ممالک کو بڑا زور دیا ہے کہ وہ تمام ان لوگوں کو کہانیوں کو منظر عام پر لائیں جن کی ذندگیاں خون کا عطیہ دینے والے لوگوں کی وجہ سے بچی ہیں ۔تا کہ ایک تو ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو جو لوگ خون کا عطیہ دیتے رہتے ہیں اور دوسرا خصوصاً آج کے نوجوان نسل میں اس عادت کو فروغ دیا جائے کہ وہ بھی بڑھ چڑھ کر اس کارِ خیر میں حصہ لیں۔ کہا جاتا ہے کہ ”ماں کے بہتے ہوئے آنسو ں شا ئد اس کے بچے کی ذندگی نہ بچا سکیں لیکن آپ کا خون اسے بچا سکتا ہے۔” قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے کہ” جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔”
ایک عام مشاہدہ میں آیا ہے کہ ہم میں سے کئی لوگ خون دیتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ان ڈرنے والوں میں بہت سے تعلیم یافتہ افراد بھی ہوتے ہیں جو یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ خون دینے سے کچھ بھی نہیں ہوتا کیونکہ خون کی کمی بھی پوری ہو جاتی ہے بلکہ اس عمل سے ان کی صحت کو فائدہ ہی پہنچے گا لیکن پھر بھی ایک انجانا سا خوف ان کے ذہنوں سے چمٹا رہتا ہے ایسے لوگوں کو خاص طور پر تربیت دینے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ خون دینے والا حقیقت میں اپنا کچھ بھی نہیں کھوتا لیکن دوسرا ضرورت مند اس سے بہت کچھ پالیتا ہے۔ہم لوگ ذیادہ تر اس وقت ہی خون دیتے ہیں جب ہمارے عزیزواقارب یا احباب میں کسی کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے ملک میں ایسے افراد بہت کم ہیں جو بغیر کسی ضرورت کے خون دیتے ہوں۔لیکن پھر بھی کئی ایسے افراد ہیں جو ایک سال میں دو یا تین مرتبہ خون دیتے رہتے ہیں یوں ان افراد کا خون ٹیسٹ کر کہ بلڈ بنکوں میں جمع کر لیا جاتا ہے۔اور بعد میں ضرورت پڑنے پر استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ہمارے ہا ں کرپشن مافیا نے بلآخر اس شعبے کو بھی نہ چھوڑا ۔جیسے کہ دورانِ آپریشن چاہے ایک بوتل خون کی بھی ضرورت نہ پڑے لیکن آپریشن سے پہلے مریضوں کو دو تین بوتلیں خون کا بندوبست کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے اور بعد میںڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف آپس کی ملی بگھت کے ساتھ اند ر کے کھاتے اکٹھی کی ہوئی اس خون کی بوتلوں کو دوسروں کو مہنگے داموں فروخت کر دیتے ہیں۔
خاص طور پر سرکاری ہسپتالوں میںآج بھی اس طرح کی کرپشن عروج پر ہے اور یوں خون کے معاملے میں کرپشن کرنے والے یہ افراد مریضوں کی ذندگیوں سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔جیسے کہ ایک لمحے کے لئے آپ بھی تصور کریں کہ جب کسی ضرورت مند کو بلامعاوضہ یا مفت خون نہ مل سکے اور اس سے بڑھ یہ کہ وہ خون کی بوتل خریدنے کی بھی سکت نہ رکھتا ہو تو اس شخص کا کیا عالم ہوگا۔ ان کے اس حرکت سے رضاکارانہ طور پر خون کا عطیہ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔حکومت یا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو چاہیے کہ وہ اس بدعنوانی پر جلد قابو پائے اور اس معاملے میں سخت نگرانی کرے۔ تاکہ خون کا عطیہ دینے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو اور ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے طور پر کالجوں ،اکیڈمیوں یا محلوں وغیرہ میں بلامعاوضہ خون کا عطیہ دینے والوںکا گروپ بنا کر دوسروں کی مدد کریں۔اور جو لوگ ایسا خیر کا کام کر رہے ہیں ان سب کو میری اور عوام کی طرف سے سیلوٹ اور شکریہ!۔
تحریر : ماجد امجد ثمر