تحریر : حفیظ خٹک
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام عالمی سطح پر خون عطیہ کرنے کا دن (World Blood Donor Day)ہر سال ماہ جون میں منایا جاتا ہے ، وطن عزیز میں بھی اس دن کوقومی اور صوبائی سطح پر منایا جاتا ہے۔ حکومت سندھ کی وزارت صحت کے زیر اہتمام بھر پور انداز میں منانے کیلئے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جس میں شرکاء کو خون عطیہ کرن کے فوائد بتائے جاتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی وہ غیر حکومتی تنظیمیں (این جی اووز) جو کہ بلڈ بینک یا تھیلے سیمیا و ہیمو فیلیا کے سینٹر چلاتے ہیں وہ بھر پور انداز میں عوام کے اندر خون عطیہ کرنے کی مہم کے سے انداز میں عالمی یوم عطیہ خون کو منانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ شہر قائد میں فاطمید فاؤنڈیشن ، عمیر ثناء ، کاشف تھیلے سیمیا کیئر سینٹر سمیت دیگر متعدد ایسی این جی اووز ہیں جو کہ تھیلے سیمیا کے خلاف عملی اقدامات اور اس کو ختم کرنے کیلئے ، اس مرض میں مبتلا بچوں کو خون فراہم کرنے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔
پاکستان میں تھیلے سیمیا کے سالانہ بنیادوں پر لاکھوں مریض ہوتے ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق 45لاکھ افراد تھیلے سیمیا اور ہیمو فیلیا کا شکار ہوتے ہیں جنہیں عطیہ خون کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ملک کی مجموعی آبادی 18کڑور سے تجاوز کر چکی ہے لہذا آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر تھیلے سیمیا کے متاثرہ بچوں اور بڑوں بیماروں پر غور کریں تو بظاہر یہ کوئی ایسا ناممکن کام نہیں کہ متاثرین مریضوں کو نہ صرف خون عطیہ کیا جائے بلکہ اس عمل سے اس بیماری ہی کو ختم کر کے رکھ دیا جائے۔
مذکورہ 18کڑور آبادی میں سے یہ امر بھی قابل تحسین ہے کہ مجموعی آبادی میں سے 65فیصد جوان ہے لہذا اگر ان جوانوں کو ہی اس عالمی دن کی مناسبت سے یہ آگاہی دی جائے کہ خون عطیہ کریں زندگی کیلئے ، ایک بوتل خون دینے سے جسم کے اوپر کسی بھی طرح کی بیماری لاحق نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی کمزوری واقع ہوتی ہے۔ انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ ان کی ایک کی بوتل خون سے تھیلے سیمیا کا مریض دیگر علاج کے ساتھ تین دن اور جیتا ہے لہذا انہیں چاہئے کہ وہ آگے بڑھیں اورخون عطیہ کرنے کا نہ صرف فیصلہ کریں بلکہ اس پر عمل کریں۔
خون عطیہ کرنے والے فرمان علی خادم جنہوں نے اپنی زندگی میں 70بار خون عطیہ کیا ، خون کے عالمی دن کے حوالے سے بتایا کہ جسم کے خون میں موجود اجزاء میں بعض اجزاء کی کمی سے تھیلیسیمیااور ہیمو فیلیا جیسی بیماری سامنے آتی ہے جس کا انجام سانسوں کا رک جانا ہے۔ میرے خون سے اگر بچے کو چند لمحے بھی زندگی کے میسر آجائیں تو میرے لئے اللہ کی جانب سے یہ بہت بڑا اجر و انعام ہوگا۔ خون دینے کے بعد میری صحت پر آج تک کوئی منفی اثر نہیں پڑا ۔ زندگی کے سبھی فرائض بحسن و خوبی سرانجام دے رہا ہوں۔ جب ملائیشیا اور سوڈان جیسے ممالک سے تھیلسمیا جیسے مرض کا خاتمہ ہوسکتا ہے تو پاکستان سے کیوں کر نہیں ہوسکتا۔
اپنے ملک کو فری تھیلے سیمیا بنانے کیلئے میں اپنے حصے کا کرداراداکرتارہوں گا۔ فرمان علی نے بتایا کہ میں نے پہلی بار خون آج سے 20برس قبل دیا تھا وہ 1996کا سال تھا۔ میرے گھر میں ، خاندان میں یا کسی جاننے والوں میں آج تک اس تھیلسیمیا جیسے مرض سے کوئی بچہ بیمار نہیں ہوا۔ ایک شوق تھا جو دل میں آیا اور میں نے اسے پوراکردیا۔
خون عطیہ کرنے کے عالمی دن پر حکومت کو چاہئے کہ جہاں وہ اس طرح کی تقریبات منعقد کا انعقاد کراتی ہیں کہ جن سے عوام میں خون عطیہ کرنے کا ذوق بیدار ہوتا ہے ایسی ہی تقریبات میں فرمان علی خادم جیسے شہریوں کو بھی بلا کر نہ صرف اعزازات دیئے جانے چاہئیں بلکہ ان کی گفتگو کے ذریعے ان کے خیالات کے ذریعے خون عطیہ کرنے کے جذبہ کو بھی پروان چڑھانا چاہئے تاکہ پاکستان کو فری تھیلے سیمیا پاکستان بنانے کے خواب کو پرا کیا جاسکے۔
تحریر : حفیظ خٹک
hafikht@gmail.com