کشمیر جنت نظیر لہو رنگ ہےاورکشمیریوں کی احتجاجی تحریک تمام تر بھارتی مظالم کے باوجود دن بدن زور پکڑتی جارہی ہے۔ حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان مظفر وانی کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کے بعد تحریک آزاد کشمیرفیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ گزشتہ 68روز سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا ہوا ہے، وہاں کاروبار زندگی عملاً مفلوج ہوچکا ہے۔بھارتی فوج نے ظلم و تشدد اور سفاکیت کی انتہا کردی ہے،مگر کشمیری مسلمانوں کا جذبہ حریت سرد نہیں ہوسکا ہے۔ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی موجودہ کشمیر کی صورتحال سے خاصے پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکہ کی سرپرستی میں بھارت اور افغانستان کے درمیان گٹھ
جوڑ بھی بے نقاب ہوچکا ہے۔ چین اور پاکستان کے خلاف امریکہ، بھارت اور افغانستان نئی صف بندی کررہے
ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے جنوبی ایشیا میں مشترکہ مفادات ہیں۔ امریکہ چین کو بھارت کے ذریعے قابو کرنا چاہتا ہے اور بھارت امریکہ کی چھتری تلے افغانستان کو ساتھ ملا کر پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کررہا ہے۔ وہ درحقیقت تحریک آزادی کشمیر سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں حالیہ تحریک کے دوران100سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔ دو ماہ سے زائد جاری اس احتجاجی تحریک کو ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اب تک روکنے میں ناکام ہیں۔المیہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان سے متعلق منفی پروپیگنڈہ کررہی ہے، اسے اس سلسلے میں اسے امریکہ کی اشیر باد حاصل ہے۔ امریکہ اور بھارت نے پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کے لئے چینی سرحد کے قریب بھارتی علاقے میں مشترکہ فوجی مشقیں بھی شروع کر دی ہیں جبکہ دوسری طرف بحیرہ ٔجنوبی چین میں بھی روس اور چین کی جنگی مشقیں جاری ہیں۔ ہندوستان نے روس ، چین کی جنگی مشقوں پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی بڑھتی ہوئی بحری قوت تشویشناک ہے اس حوالے سے حکمت عملی بنارہے ہیں۔بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے کے مصداق روس جو کبھی بھارت کا حلیف تھا اب وہ چین اور پاکستان کے قریب دکھائی دے رہا ہے۔ عالمی سطح پر بڑی تبدیلیاں رونماہورہی ہیں۔ پاکستان بھی ان تبدیلیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ جموں و کشمیر ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ پاکستان چونکہ اس معاملے میں اہم فریق ہے، چنانچہ اس نے کشمیری عوام کو دکھ اور آزمائش کی گھڑی میں کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بھی عیدالاضحی کو کشمیریوں کے نام کرکے ایک اچھا اقدام کیا ہے۔ اس بار عیدالاضحی کے موقع پر بھی ہندوستان کو کشمیری مسلمانوں پر رحم نہیں آیا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ مقبوضہ کشمیر میں عید کےاجتماعات پر پابندی لگائی گئی۔ ان گنت کشمیریوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ حریت کانفرنس نے بھارتی مظالم کے خلاف احتجاجی تحریک کو مزید وسعت دے دی ہے۔ عیدقرباںپر بھی لہورنگ کشمیر دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا۔ بھارتی فوج پیلٹ گنوں کا استعمال کرکے کشمیریوں کو اندھا اور اپاہج بنارہی ہے، اگرچہ وزیر اعظم نواز شریف جموں و کشمیر پر اس وقت خصوصی توجہ دے رہے ہیں اورپچھلے دو تین ماہ میں ان کی طرف سے اس ضمن میں کچھ اقدامات بھی کئے گئے ہیں لیکن بھارت کے مقابلے میں یہ اقدامات ناکافی ہیں، ا بھی حکومت پاکستان کو اس سلسلے میں بہت کچھ کرنا ہوگا۔ مسئلہ کشمیرکو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کے لئے ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل جن وفود کو مختلف ممالک میں بھجوایا گیا ہے ان پر بھی ملک کے سنجیدہ قومی و سیاسی حلقوں نے سوالات اٹھائے ہیں۔ایسے ارکان اسمبلی کو بھی بیرونی وفود میں شامل کیا گیا ہے جن کو دو جملے بھی انگریزی زبان میں بولنا نہیں آتے۔ آخر وہ بیرون ملک کیا پاکستان کی نمائندگی کریں گے؟ وفاقی حکومت کو سیاسی جماعتوں سےاچھے پڑھے لکھے لوگوں کو بیرونی وفود میں شامل کرنا چاہئے تھا تاکہ بھارتی ریاستی مظالم کو دنیا کے سامنے لایا جاتا۔ جموں و کشمیر برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ مقام افسوس یہ ہے کہ عالمی برادری اس اہم اور حساس معاملے پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔حکومت پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے خلاف بھرپور مہم چلانے کے لئے دنیا بھر میں موجود اپنے سفارتخانوں کو الرٹ کرنا چاہئے۔ عالمی برادری کا بھی فرض ہے کہ وہ ہندوستان کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے پر مجبور کرے کیونکہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا اس وقت تک خطے میں امن کا قیام ناممکن ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو بھی بھارت اپنے لئے سیکورٹی چیلنج تصور کرتا ہے۔ ہندوستانی میڈیا نے بھی اکنامک کاریڈور منصوبے پر واویلا شروع کردیا ہے۔ اقتصادی راہداری کا عظیم منصوبہ چونکہ اہم اور حساس ہے اس لئے اسے اندرونی اور بیرونی کئی خطرات لاحق ہیں۔اس حوالے سے پاک فوج اور حکومت کی جانب سے سخت سیکورٹی کے جو اقدامات کئے گئے ہیں ان پر بھی بھارت کو خاصی تکلیف ہورہی ہے ،حالانکہ اس کا اقتصادی راہداری کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں چین میں ہونے والےG20کے اجلاس میں بھی ہندوستانی وزیر اعظم نریندری مودی اقتصادی راہداری کے منصوبے پر برہم دکھائی دیئے۔ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو اپنے لئے ایک سیکورٹی چیلنج تصور کرتا ہے کیونکہ یہ منصوبہ آزاد کشمیر میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے جموں کے قریب سے ہو کر گزرے گاتاہم انڈیا کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ اگر اقتصادی راہداری پروجیکٹ کامیاب ہوگیا تو اسے جموں و کشمیر سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی آستین چڑھائے پاکستان کے خلاف سرگرم عمل نظر آرہے ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی بھی امریکہ کے اشارہ ابرو پر بھارت کی ہاں میں ہاں ملارہے ہیں۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے تو کئی قدم آگے بڑھ کر بھارت نوازی کا ثبوت دیا ہے۔ بھارتی ایماء پر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ایک اور رہنما میرقاسم علی کو بھی چند روز قبل تختہ دار پر لٹکا دیاگیا۔ میر قاسم علی کو پاکستان سے محبت اور وفاداری کے جرم میں سزائے موت دی گئی ہے؎
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
میر قاسم علی سے قبل سفاک بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد جماعت اسلامی کے رہنمائوں مطیع الرحمان نظامی، علی احسن مجاہد، عبدالقادرملا، محمد قمر الزمان اور بی این پی کے رہنما صلاح الدین قادر کے خون سے بھی اپنے ہاتھ رنگ چکی ہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق امیر اور91سالہ بزرگ پروفیسر غلام ا عظم بھی دوران اسیری اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اس وقت بھی جماعت اسلامی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ہزاروں لوگ بنگلہ دیش کی مختلف جیلوں میں حسینہ واجد کے انتقام کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت کے اقدامات سے یہ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ وہ 1971 ء میں پاکستان سے وفاداری کرنے والوں کو اس لئے پھانسیاں دے رہی ہے تاکہ ریاست پاکستان کو بدنام کیا جائے۔ ہندوستان کی خواہش ہے کہ پاکستانی فوج کے خلاف بھی بنگلہ دیشی حکومت جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرے حالانکہ یہ1974ءمیں ہونے والے سہ فریقی معاہدے کی صریحاً نفی ہے۔ 1974ءمیں سہ فریقی ممالک کے معاہدے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ بنگلہ دیش میں جنگی جرائم پر مقدمات قائم نہیں کئے جائیں گے۔ حسینہ واجد نے پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والے سہ فریقی معاہدے کی دھجیاں اڑادی ہیں۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش میں پھانسیوں پر شدید ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ میرقاسم علی کی پھانسی پر پاکستانی دفتر خارجہ نے رسمی مذمت پر اکتفا کیا حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت پاکستان حسینہ واجد حکومت سے سخت احتجاج کرتی اور بنگلہ دیشی سفیر کواحتجاجاً واپس بھجوایا جاتا۔
بشکریہ جنگ