آپ اب صورتحال ملاحظہ کیجیے۔
روس کے تمام فیصلہ ساز ادارے افغانستان اور امریکا کے دشمن طالبان کے ساتھ ہیں‘ روس ان طالبان کو افغان حکومت اور امریکا کے خلاف استعمال کرتا ہے اور پاکستان کی دشمن تنظیمیں اور دشمن طالبان افغان حکومت کے پاس ہیں اور بھارت افغان حکومت کی مدد سے ان طالبان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے‘ امریکا کو اس استعمال پر کوئی اعتراض نہیں‘ بھارت افغانستان میں ہرسال اربوں روپے خرچ کرتا ہے‘ یہ رقم پاکستان میں دہشتگردی کے لیے استعمال ہوتی ہے‘ بھارت افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران کو بھی پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کی لانچنگ کے لیے استعمال کررہا ہے۔
کلبھوشن یادیو جیسے جاسوس ایران سے بلوچستان آتے ہیں اور پاکستان کو نقصان پہنچاتے ہیں‘ افغانستان میں اب طالبان کے دو گروپ ہیں‘ ایک گروپ کو روسی حکومت افغانستان اور امریکا کے خلاف استعمال کر رہی ہے اور دوسرے گروپ کو بھارتی سرکار افغانستان اور ایران کی مدد سے پاکستان کے خلاف استعمال کرتی ہے‘طالبان کا ایک تیسرا گروپ بھی ہے‘ حقانی نیٹ ورک‘ افغانستان اور امریکا کے بقول یہ پاکستان کے گڈ طالبان ہیں اور یہ افغانستان میں استعمال ہوتے ہیں تاہم پاکستان گڈ طالبان یا حقانی نیٹ ورک کے وجود سے انکاری ہے۔
ہم اب آتے ہیں امریکا اور افغانستان کے اعتراضات کی طرف‘ یہ دونوں افغانستان میں دہشت گردی کی ہر واردات کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہراتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں حقانی نیٹ ورک اور تحریک طالبان افغانستان دونوں متحد ہیں‘ تحریک طالبان افغانستان کو روس سپورٹ کر رہا ہے اور حقانی نیٹ ورک کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے اور یہ دونوں مل کر افغانستان میں امریکا کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں طالبان وہ کنڈی ہیں جس نے 70 برس کے دشمن پاکستان اور روس کو آپس میں جوڑ دیا ہے‘ روس اب پاکستان سے وہ کام لے رہا ہے جو امریکا نے 1979ء میں اس سے لیا تھا چنانچہ امریکا افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی کی ہر واردات کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔
ہم نے 10 جنوری کو اس سوچ کا تازہ ترین عملی مظاہرہ دیکھا‘ کابل اور قندہار میں 10 جنوری کو تین بم دھماکے ہوئے‘ 50 لوگ مارے گئے‘ ان میں متحدہ عرب امارات کے پانچ سفارت کار بھی شامل تھے‘ افغانستان نے ان دھماکوں کی ذمے داری بھی پاکستان پر ڈال دی‘ 13جنوری کو کابل میں پاکستان کے خلاف مظاہرہ ہوا ‘ مظاہرین نے پاکستانی سفارت خانے میں گھسنے اور توڑپھوڑ کی کوشش کی‘مظاہرے کی قیادت افغانستان کا سابق انٹیلی جینس چیف امراللہ کر رہا تھا‘ یہ مظاہرہ افغانستان کی سوچ کا مظہر ہے‘ امریکا بھی بدقسمتی سے اس سوچ میں افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے جب کہ بھارت اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے‘ یہ چاریکار کو پاکستان مخالف قوتوں کا ہیڈکوارٹر بنا رہا ہے‘ افغانستان میں حملے روس کے حمایت یافتہ طالبان کرتے ہیں اور بھارت اس کاجواب تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے پاکستان میں دیتا ہے اور افغانستان اور امریکا انڈیا کو سفارتی اور سیاسی مدد دیتے ہیں۔
پاکستان کی کالعدم تنظیمیں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز پاکستان میں لاشیں دیکھتے ہیں تو یہ ان لاشوں کا جواب پٹھان کوٹ اور اوڑی میں دیتے ہیں یوں یہ جنگ آہستہ آہستہ افغانستان‘ پاکستان اور بھارت تینوں ملکوں میں پھیلتی چلی جا رہی ہے اور ان تینوں ملکوں کے دونوں سروں پر روس اور امریکا بیٹھے ہیں‘ روس باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت امریکا کو عراق‘ شام اور ترکی میں بھی پھنسا رہا ہے‘ یہ امریکا سے شام‘ عراق اور افغانستان میں 1980ء کی دہائی کی شکست کا بدلہ لے رہا ہے ‘ یہ بدلے کی اس جنگ میں وہ تکنیکس استعمال کر رہا ہے جو امریکا نے سوویت یونین کے خلاف ایجاد کی تھیں‘ یہ صورتحال اگر جاری رہی توہمارا خطہ میدان جنگ بن جائے گا اور دنیا کی دونوں بڑی طاقتیں اس میدان جنگ میں اپنے پرانے حساب بے باق کریں گی‘ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں‘ اگر ہاں تو پھر ہمیں اپنی حماقتیں جاری رکھنی چاہئیں اور اگر نہیں تو پھر ہمیں اپنے معاملات ٹھیک کرنا ہوں گے۔
ہمیں دو کام کرنا پڑیں گے‘ ہمیں چین کی ثالثی میں افغانستان اور بھارت کے ساتھ میز پر بیٹھنا ہو گا‘ ہمیں روس کو بھی سمجھانا ہو گا یہ تحریک طالبان افغانستان سے رابطوں کے لیے پاکستانی سرزمین استعمال نہ کرے اور ہمیں ایران سے بھی درخواست کرنا ہو گی یہ کلبھوشن یادیو جیسے جاسوسوں کے لیے بھارت اور ملامنصور جیسے قائدین کے لیے روس کا سہولت کار نہ بنے اور دوسرا ہمیں اپنا ہاؤس بھی ’’ان آرڈر‘‘ کرنا ہو گا‘ ہمیں یہ ماننا ہوگا ہمارے ملک میں فوج اور سول حکومت ’’ایک پیج‘‘ پر نہیں ہیں‘ ان دونوں کے درمیان شک اور بے یقینی کی میلوں لمبی خلیج حائل ہے‘ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا یہ خلیج صرف میاں نواز شریف تک محدود نہیں بلکہ یہ فاصلے جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے ادوار میں بھی موجود تھے‘ جنرل پرویز مشرف فوج کے سپہ سالار تھے لیکن یہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو 2007ء کے عدالتی انقلاب کا ذمے دارگردانتے ہیں۔
یہ سمجھتے ہیں جنرل کیانی ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘ یہ چاہتے تو یہ جج صاحبان‘ وکلاء‘ پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ ن اور میڈیا کو کنٹرول کر سکتے تھے‘ یہ جنرل مشرف کی حکومت بچا سکتے تھے لیکن یہ اپنے سپہ سالار کی مدد کے بجائے خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف یونیفارم اتارنے پر مجبور ہو گئے اور یونیفارم اترتے ہی یہ ایوان صدر سے بھی فارغ ہو گئے‘ جنرل مشرف اپنی نجی محفلوں میں ببانگ دہل کہتے ہیں‘ مجھے سعودی شاہ عبداللہ نے بچایاتھا‘ انھوں نے جنرل کیانی کو ریاض بلا کر کہاتھا‘جنرل مشرف میرے دوست ہیں‘ انھیں کوئی تکلیف ہوئی تو میں اپنا جہاز بھجوا کر انھیں سعودی عرب لے آؤں گا‘ آپ ان کا خیال رکھیں‘ جنرل مشرف صاف کہتے ہیں ’’شاہ عبداللہ ساتھ نہ دیتے تو میرے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں ہی کارروائی شروع ہو جاتی‘‘ آپ اس مثال سے مشرف دور میں سول حکومت اور فوج کے تعلقات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
آصف علی زرداری کے دور میں فوج اور حکومت کے درمیان شک کی دیوارمزید اونچی ہو گئی‘ آرمی چیف جنرل کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا دونوں نے میمو کیس میں حکومت کے خلاف بیان جمع کرا دیا تھا‘ آصف علی زرداری کو2011ء میں میڈیکل بورڈ کے ذریعے ’’ناٹ فٹ فار جاب‘‘ بھی قرار دینے کی کوشش کی گئی اور ایک ایسا وقت بھی آیا جب آصف علی زرداری نے اپنی وصیت تیار کر لی اور یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاکستان سے رخصت بھی ہو گئے‘ میاں نواز شریف کی حکومت آئی تو شک کی یہ دیوار اپنی انتہائی بلندی کو چھونے لگی‘ ملک کے ایک بزنس ٹائیکون نے 2013ء کے الیکشن سے قبل دوبئی میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور انھیں بتایا‘ میں نے فلاں شخص کے حکم پر آپ کے فلاں سیاسی مخالف کو ڈیڑھ سو کروڑ روپے دیے ہیں‘ میں آپ کو اس لیے بتا رہا ہوںکہ آپ کو کبھی نہ کبھی پتہ چل جائے گا اور یوں آپ کے میرے ساتھ تعلقات خراب ہوں گے‘ میاں نواز شریف کی حکومت بنی‘ نومبر 2013ء میں جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کا وقت آیا‘ آرمی چیف نے اگلے چیف کے لیے پانچ جرنیلوں کے نام بھجوادیے‘ان پانچ ناموں میں اس شخص کا نام بھی شامل تھا‘ اس شخص نے عدنان کاکاخیل کے ذریعے لابنگ کی کوشش بھی کی‘ عدنان کاکاخیل نے یہ پیغام چوہدری نثار تک پہنچادیا لیکن چوہدری صاحب نے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا یوں یہ لابنگ شروع ہی میں دم توڑ گئی۔
میاں نواز شریف نے جنرل کیانی کی مخالفت کے باوجود جنرل راحیل شریف کے حق میں فیصلہ دے دیا اوریہاں سے ایک نئی کہانی شروع ہو گئی‘ جنرل راحیل شریف ایک طرف ہیرو بننے لگے اور دوسری طرف میاں نواز شریف کو زیرو بنانے کا عمل شروع ہو گیا‘ 2014ء کا دھرنا ہوا اور یہ دھرنا حکومت کا سارا اعتمادکھا گیا‘ یہ راز بھی اب راز نہیں رہا وزیراعظم پر جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنانے اور ایکسٹینشن دینے کے لیے دباؤ تھا‘ حکومت نے 30 جون سے 30 نومبر تک اس دباؤ میں وقت گزارا ‘ یہ ان کی زندگی کا مشکل ترین وقت تھا‘ یہ وقت بھی بہرحال گزر گیا لیکن یہ وقت سول اور فوج کے درمیان موجود خلیج کو مزید وسیع کر گیا‘ قوم جنرل راحیل شریف کو ہیرو سمجھتی ہے۔
یہ ہیرو ہیں بھی لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے اور یہ شاید ہمیشہ قائم رہے گا کہ وہ کون سا کام‘ وہ کون سا منصوبہ تھا جو جنرل راحیل شریف کے دور میں شروع ہوا اور ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل مکمل ہو گیا‘یہ سوال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلند ہوتا چلا جائے گا‘ ہمیں اس بلند ہوتے سوال کے جواب سے قبل یہ ماننا ہو گا فوج اور سول حکومتوں کے تعلقات خراب تھے اور یہ تعلقات آج بھی خراب ہیں‘ طاقت کے دونوں ستون اکٹھے نہیں ہیں اور اس دوری کا نقصان ملک کو ہو رہا ہے‘ پاکستان کے سارے دشمن جمع ہو چکے ہیں لیکن ہم منقسم ہیں لہٰذا ہم اگر ملک کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اکٹھا ہونا ہوگا‘ فوج اور حکومت کو ایک پیج پر آنا ہو گا ورنہ دوسری صورت میں پیج بچے گا اور نہ ہی پیج کے لیے لڑنے والے‘ ہم سب خون کے دریا میں ڈوب جائیں گے۔