تحریر : عقیل احمد خان لودھی
ملک میں ایک عرصہ سے قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے اچھے بھلے ہنستے بستے گھرانوں میں چند سیکنڈز میں ماتمی صفیں بچھ جاتی ہیں قاتلوں کا پتہ ہی چلتا ہے نہ معلوم ہوتا ہے کہ مرنے والے کا قصور کیا تھا ، چوری ڈکیتی اغواء کی وارداتوں کے علاوہ بہت سے افراداپنے گھروں اور دفاتروں میں ٹارگٹ کلنگ میں جان کی بازی ہار چکے ہیں ، روزانہ کے اخبارات میںاندھے قتلوں کی کئی خبریں ہوتی ہیں مرنے والا کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کرے؟ کچھ پتہ نہیں چلتا صورتحال یہاں تک آچکی ہے ۔۔۔حدیث مبارکہ ہے نبی کریم نے ارشاد فرمایا: قرب قیامت اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کا خیال نہیں رکھا جائے گا، نہی عن المنکر میں کمی آجائے گی، تو لوگ شراب نوشی کریں گے، زنا عام ہوجائے گا، لوگوں کے دلوں پر بخل کا غلبہ ہوگا، قتل وغارت گری عام ہوجائے گی، معاملہ یہ ہوگا کہ قاتل کو پتہ نہیں ہوگاکہ اس نے کیوں قتل کیا اور مقتول کو یہ معلوم نہیں ہوسکے گا کہ اسے کیوں قتل کیا جارہا ہے، دریافت کیا گیا، اے اللہ کے رسول یہ کیسا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: (قاتل اور مقتول دونوں ہی جہنمی ہونگے(روایت مسلم)۔ آج ہمارے ہاں اس حدیث کی عملی تفسیر دیکھی جاسکتی ہے۔
ملک کے مختلف حصوں میں قتل و غارت گری کی وارداتیں اپنے عروج پر ہیں اور ان علاقوں میں دیکھا جائے تو یہاں مقتولوں کی کسی نہ کسی طرح کسی سیاسی جماعت سے وابستگی ضرور ہوتی ہے یا پھر سیاسی افراد ان قتلوں پر بحث کرتے ضرور نظر آتے ہیں ۔ ملک بھر کی عوام میں کچھ سیاسی جماعتوں کے بارے عرصہ دراز سے اچھی رائے بھی نہیں پائی جاتی کبھی بوری بند لاشوں کا سلسلہ تو کبھی ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات سے لاکھوں ،کروڑوں عوام خوفزدہ اور ان واقعات سے نجات کے دیرینہ متمنی ہیں۔ مگر بلی کے گلے میں کون گھنٹی باندھے والا معاملہ، بلی بھی ایسی کہ جس تک پہنچنے کیلئے سینکڑوں خونخوار درندوںکے حصار کو پار کرکے پہنچنا پڑے۔ ہمارے ہاں ریاست عرصہ دراز سے ان واقعات میں ملوث افراد کو ٹریس کرنے اور قاتلوں کو عبرت کا نشان بنانے کے معاملہ میں جمود کا شکار رہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قاتل ریاست کو للکارتے ہیں حیلے بہانے گردانتے ہیں گواہوں کا نشان تک مٹادیا جاتا ہے مقدمات کی فائلیں تک غائب کردی جاتی ہیں،
ججوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں فیصلہ مرضی کا نہ آئے تو تسلیم کرنے سے انکارکردیا جاتا ہے جیلوں پر اور پولیس گاردوں پر حملے کروائے جاتے اور مجرموں کو چھڑوالیا جاتا ہے ریاستی اہلکاروں کے پاس اس طرح کا جدید اسلحہ نہیں ہوتا جو کریمینلز کے پاس ہوتا ہے ۔ اور جب زمینی حقائق بھی واضح ہوں، عینی شاہد بھی موجود ہوں اور قانون اندھے،بہرے ،گونگے کا روپ دھار جائے تو سمجھ لیجئے کہ یہاں ایک ایسی طاقت کا ہاتھ ہے جو ملک پاکستان میں گزشتہ67سالوں سے عوامی خدمت کا بہروپ دھارے ہوئے ہے اور اس طاقت کا نام سیاست ہے انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے لوگ آج 7 دہائیوں کے قریب عرصہ میں بھی باشعور نہیں ہوسکے سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی مقاصد کیلئے اپنی چاہت میں اندھے ہونے والوں کو استعمال کرتی ہیں دھرنے ہوتے ہیں لوگوں کو اشتعال دلوایا جاتا ہے، برسراقتدار طبقہ فورسز کا اندھا دھند استعمال کرتا ہے جبکہ حریف اپنے ساتھ آنے والے عام لوگوں کو اشتعال دلواتے ہیں اور پھر نتیجہ میں آج تک کوئی لیڈر نہ فورسز کی کسی گولی کا شکار ہوا ہے اور نہ ہی مظاہرین کی پہنچ میں آتا ہے مرتے ہیں وہی جو؛ ان پارٹیوں کی محبت میں اندھے ہوچکے ہیں پارٹیاں عام لوگوں کو استعمال کرتی ہیں جس طرح حالیہ دھرنوں میں فریقین کی سیاست کئی انسانی جانوں کو نگل گئی اور ایک دوسرے کی مخالفت میں بظاہر جانی دشمنلگنے والے اب جمہوریت کو بچانے کے نام پر اکٹھے ہورہے ہیں مرنے والے عام آدمی کس کھاتے میں گئے؟ یہ باتیں سمجھنے کی ہیں جو یہ قوم شاید کبھی نہیں سمجھے گی۔
اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز اور ان کے پالے ہوئے غنڈہ گردعناصر کی خفیہ سرگرمیاں کتنی جانیں نگل جاتی ہیں اس کو سمجھنے کیلئے معروف سیاسی جماعتوں کے کارندوں کی طرف سے بیان کئے جارہے حقائق کافی ہیں سیاسی جماعتوںکے پالتو قاتل پھانسی کے پھندوں پر خود کو تنہا دیکھ کر اپنے سیاسی لیڈروں کے کرتوتوں کو ان دنوں خود بے نقاب کررہے ہیں اور تحقیق یہ بات بتاتی ہے کہ موت کو قریب دیکھ کر انسان زبان سے سچ اگلنا شروع کردیتا ہے۔ مجرمان عوام کی خدمت کے بلند وبانگ دعوے کرنے والوں کی اصل عوامی خدمت کا حقیقی راز فاش کررہے ہیں دو مجرم صولت مرزا ، عزیر بلوچ جو اپنے جرم کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جاتی رہی ہیں اگر یہی مجرمان کسی عام غریب آدمی کا نام لیتے تو اب تک قانون غریب آدمی کو پکڑنے کیلئے اس کے خاندان کے بچے ،بوڑھوں، بزرگوں خواتین کو بھی روند چکا ہوتا مگر یہاں معاملہ اور ہے کہ ان لوگوں پر ہاتھ ڈالیں گے تو عوامی خدمت کے عزم سے سرشار اسمبلیوں میں چیخ وپکار شروع ہوجائے گی کہ جمہوریت کیساتھ سازشیں ہورہی ہیں ملزم معصوم اور بے گناہ ہیں اور ان کے حاسدین کا پروپیگنڈہ ہے وغیرہ وغیرہ ابھی تو صرف یہ دو مجرم قاتل سامنے آئے ہیں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے ہیں جن کی اﷲ تعالیٰ نے رسیاں دراز کررکھی ہیں اور انہیں ان طبقات کی پشت پناہی حاصل ہے جن کا دور حاضر میں ڈنکا بج رہا ہے
اگر ایک ایک کرکے سبھی قاتل روز محشر کے عذاب سے بچنے اور اﷲ کی رضامندی کیلئے اپنے جرائم کو تسلیم کرکے سامنے آجائیں تو اس بات کا قوی یقین ہے کہ ملک میں جاری سیکیورٹی فورسز پر حملوں،بم دھماکوں، قتل اور دہشت گردی کی بہت سی وارداتوں میںبڑے بڑے معززین اور عوامی خادموں کے نام سامنے آئیں گے اور پھر شاید ہماری فوج،سیکیورٹی فورسز کو بھی طالبان یا دوسری دہشت گردوں تنظیموں کیخلاف جاری آپریشن کے بارے نظر ثانی کرنا پڑے کہ آستین کے سانپ زیادہ خطرناک ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے جھوٹے پر اﷲ کی لعنت ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں سیاست جھوٹ کا پلندہ بن کررہ چکی ہے انتخابی مہمات میں لیڈر قوم سے جھوٹ بول کر اقتدار میں آتے اور پھر وعدہ خلافی کرکے یقیناََ اﷲ کی لعنت کے مستحق بنتے ہیں اور پھربرملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بھی بات حرف آخر نہیں ہوتی عام آدمی کو گمراہ کر کے مروا کر بعد میں ایک دوسرے کو گلے لگا لیا جاتا ہے کہاں جاتی ہیں وہ بڑھکیں ایک دوسرے کو جھوٹا ،ملک کا غدار ،قوم کا غدار کہنے کی باتیں؟ قوم کو بے وقوف بنایا جاتا ہے عام آدمی کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر ان کی زندگیوں سے کھیلنے کا نام ہی اگر سیاست ہے تو اس سیاست پر 101ہزار بار لعنت ہو!
جہاں تک صولت مرزا اور عزیر بلوچ کا معاملہ ہے تو ان مجرمان کی طرف سے لگائے گئے الزامات پرریاستی اداروں کو بغیر کسی خوف کے کاروائی کرنا ہوگی رینجرز اور افواج پاکستان کو تو پہلے ہی ہر محب وطن کی حمایت حاصل ہے کروڑوں پاکستانی، مائیں،بچے، جوان، بزرگ سجدوں میں ان کی عزت حفاظت استقامت کی دعائیںکرتے ہیں جس طرح سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں رکھا گیا اسی طرح ان شخصیات کو بھی مقدس گائے نہ سمجھا جائے کسی استثنیٰ کو خاطرمیں نہ لایا جائے خواہ کوئی کتنے ہی بڑے عہدے پر قائز رہ چکا ہو یا اسے عوام کے نام پر کتنے ہی بڑے ہجوم کی حمایت حاصل ہو ۔۔۔۔ ان لوگوں کو شامل تفتیش کیا جائے ان سے اسی طرح نمٹا جائے جس طرح گجرات کے کسی قصبہ کا تھانیدار کسی بکری چوری کے ملزم سے نمٹتا اور اس سے تمام وارداتوں کے راز اگلوا لیتا ہے اگر ملزمان کو ان کے عہدوں یا مرتبوں کے ترازو میں ڈال کر اب بھی پس و پیش سے کام لیا گیا اور نا م نہادجمہوریت(حقیقی آمریت) کو ہی کھپے کھپایاگیا تو اس ملک میں صدیوں تک بھی امن وامان قائم نہیں ہوسکتا۔
تحریر : عقیل احمد خان لودھی