آج علی الصبح دفتر کیلئے نکلتے ہی تپتے سورج کا سامنا کرنا پڑا، فارغ البال سر پر سورج کی تپش سے محسوس ہورہا تھا کہ پانچوں گھی میں تو نہ سہی لیکن سر کڑاہی میں ضرور ہے۔ دفتر پہنچتے ہی ہلاکو خانطبعیت کے دو چار کولیگز سے دعا سلام ہوئی۔ ہلاکو خان طبیعت اس لئے کہا کہ کیوں کہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ہلاکو اور چنگیز خان کے خاندان سے ہیں جبکہ میرے کچھ کولیگز سکندر اعظم کے جرنیلوں کے خاندان سے تعلق کے بھی دعویدار ہیں۔ وہ تو شکر ہے ہٹلر کی نظر برصغیر پر نہ پڑی ورنہ کچھ ہٹلر صفات شخصیات بھی مل جاتیں۔
ہلاکو خان جس نے کئی ریاستوں کو تخت و تاراج کیا۔ وہ جس نے انسانی سروں کی فصیلیں کھڑی کیں اور انسانی کھوپڑیوں کے برتن بنائے، سکندر اعظم ، چنگیز خان کی بھی داستان کچھ ایسی ہی ہے۔ ماضی قریب میں ہٹلر کو بھی قتل عام کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔خیر قصہ مختصر آج گرمی کی شدت سے جہاں سر گھوما، وہیں کچھ دوستوں کی جانب سے ملک میں 5ہزار لوگوں کو لٹکانےکی خبریں بھی سنی جارہی ہیں۔ وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے تجویز پیش کی کہ ملک میں پانچ ہزار بندوں کا لٹکا دیا جائے تو حالات بہتر ہوجائیں گے۔ حضور آپ نے بجا ہی فرمایا وہ انقلاب ہی کیا جس میں سروں کی فصلیں کاٹ کر تخت شاہی کو بھینٹ نہ چڑھائی جاسکے۔ آپ نے بجا فرمایا لیکن عالی مرتبت کس کس کو لٹکائیں گے۔ ابھی کل ہی کسانوں سے بات ہوئی جو نہری پانی کی کمی، سرکاری ریلیف نہ ملنے اور پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے پر نوحہ کناں تھے۔ انہیں ہی لٹکا دیتے ہیں ناں ۔ نہ رہے گا بانس نہ ہی بجے گی بانسری۔۔ انصاف کا بول بالا ہونے سے قبل اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر تھے۔ انصاف تو یہ ہے کہ اس میں تحریک انصاف کا قصور نہیں ہے۔ ان بچوں کو بھی لٹکا دیتے ہیں۔ عالی جاہ! پانچ ہزار ہی کیوں ؟ ہر سر اٹھانے والے سرکنڈے کا سر ہی کچل دیتے ہیں، وہ کیا ہے ناں یہ عوام بھی سپولوں جیسی ہے؟ سانپ کی طرح جب ان کا مقصد حاصل نہیں ہوتا اپنے ہی نجات دہندہ جسے اپنے کندھوں پر بٹھا کر تخت نشین کرتے ہیں، اسے اتار پھیکنتی ہے۔ اس لئے سب کا سر قلم ہوجانا چاہیے۔ پیارے وزیر صاحب! کس کس کو لٹکائیں گے پاکستان میں جہیز کی رقم نہ ہونے کے باعث لاکھوں لڑکیوں بالوں میں چاندی سجائے بیٹھی ہیں۔ ان کا سر قلم کردیتے ہیں۔ ان باغیوں ، ان فسادیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ لیکن آپ تو صرف پانج ہزار کی بات کر رہے ہیں۔ شہنشاہ وقت کے حکم پر اگر عام معافی کا اعلان کربھی دیا جائے تو پھر کوئی نہ کوئی سر پھرا سر اٹھا کر نظام کے خلاف آواز بلند کرسکتا ہے۔ اس لئے ہر ایک کو معافی دینی بھی نہیں چاہیے۔محترم وزیر! معافی دیں، ہر اس فرد کو جو روٹی نہ مانگے، جو پانی نہ مانگے، جو جینے کا حق نہ مانگے، جس کا اوٹھنا بچھونا جی حضوری ہو۔ محترم فیصل ووڈا صاحب حکومت املی کی چٹنی نہیں کہ ایک بار انگلی پر لگا لیں اور سارا دن چاٹتے رہیں ، بلکہ یہ وہ کڑوی گولی ہے جسے نہ ہی نگلا جا سکتا ہے اور نہ ہی اگلنے کا موقع ملتا ہے۔ آپ خونی انقلاب کی دعوت دے رہے ہیں۔ لیکن جناب اعلیٰ کاو بوائے کی زندگی اس انقلاب کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ انقلاب کیلئے عوام کے دلوں میں راج کرنا پڑتا ہے۔ راتوں کی نیند اور دن کا چین حرام کرنا پڑتا ہے۔ تپتے صحراؤں کی خاک چھاننا پڑتی ہے جبکہ برف پوش پہاڑوں پر بھی بسیرا کرنا پڑتا ہے۔ اتنی ریاضت کے بعد ہی انقلاب کے راستے پر چلا جا سکتا ہے۔ ایمپورٹڈ گاڑیوں اور برانڈڈ موٹر سائیکلوں کے جھولے لیتے ہوئے عوام کو لٹکانے کے سپنے چھوڑیں اور عوام کو کچھ ریلیف دے دیں ۔ اس عوام کو جس نے آپ کو بیلٹ باکس بھر بھر کر ووٹ دئیے اور اب کہیں یہی عوام آپ کو جھولیاں بھر بھر کر بددعائیں نہ دیں۔ خدارا ! عوام کو ناممکنات اور غیر اہم مسائل میں نہ الجھائیں ۔انہیں بس کچھ ریلیف دے دیں۔ تاکہ یہ غریب شہری زندگی کی باقی سانسیں سکون کیساتھ لے سکیں۔