تحریر : شہزاد سلیم عباسی
بالآخر 15 اگست کو فیصلہ آگیا ۔عدالت نے بول ٹی وی کے ملزمان کی ضمانت یہ کہہ کر منظور کرلی کہ ایگز یکٹ سکینڈل کے شعیب شیخ کے خلاف پولیس، رینجرز اور دوسرے قانون نافذکرنے والے سیاسی وفادار جعلی ڈگریوں کا کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے اور نہ ہی ایگزیکٹ سے متاثرہ کسی شخص نے عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے اتنا بھی کہہ ڈالا کہ ایف آئی اے اور پراسکیوشن نے شعیب شیخ کو پھنسانے کے لیے تخریبی حربے استعمال کیے۔بول ٹی وی کے رعب سے کانپ اٹھنے والا طاقت ور میڈیا اور بدمست سیاسی مافیہ دلائل میں کمزور ضرور ہے مگر عدلیہ اور قانون کی انکے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ عدلیہ ، قانون اور پارلیمنٹ کا عزت و احترام عہدے اور روپے کی طاقت کے سامنے ڈھیر ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری کے 126 دنوں کے دھرنے میں جس طریقے سے متعدد نشریاتی اداروں نے حکومت مخالف بیانات اور تبصروں سے حکومت کو ناکوں چنے چبوائے اور جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے کے لیے جو منفی کردار ادا کیا اور صحافتی اقدار سے ماوارء ہو کر منتخب آئینی و جمہوری حکومت کے خلاف زہر اگلا اسے حکومت نے معاف کر دیا۔
دھرنوں کے دوران ٹی وی دیکھ کر لگتاتھا حکومت ابھی چند لمحوں میں دھڑام ہو جائے گی بلکہ ایک بار تو عمران اور قادری کے احتجاج کے ساتھ میڈیا کی طاقت نے وزیر اعظم نواز شریف کو کافی حد تک کرسی چھوڑنے کا سوچنے پر مجبور بھی کر دیا تھا لیکن بھلا ہو پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا جنہوں نے جمہور کی عزت بچا لی ۔اسی طرح پاکستان کے سب سے بڑے نشریاتی ادارے کے اینکر پرسن نے خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد جس طریقے سے میڈیا کے سامنے پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو برائے راست اپنے اوپر ہونے والے حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا اورالزام عائد کیا کہ میں نے پہلے نے بھی کئی بار کہا تھا کہ مجھے پاکستانی ایجنسیوں سے شدید خطرہ لاحق ہے اور یہاں تک بھی کہا کہ میں ان کے خلاف ایف آئی درج کرائوں گا۔ جس پر حکومتی اور عسکری نمائندوں نے سینئر صحافی پر قاتلانہ حملے کو صحافتی برادری بلکہ ملک و قوم پر حملہ قرار دیا اور شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اینکر پرسن اور انکے اہل خانہ کو یقین دلایا کہ انکے قاتل جلد سے جلد قانون کی گرفت میں ہونگے۔
لیکن انہوں نے متعلقہ ٹی وی اور اینکر پرسن کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے اس بات کو بھی واضح کیا کہ پاک فوج اور اپنی سپر پاور ایجنسیوں کے خلاف کسی قسم کی ہرزاسرائی کوبرداشت نہیں کیا جائیگا ۔ اس سب کے با وجود بھی موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے حکومت نے انہیں بڑے ہی خندہ پیشا نی سے معاف کر دیا اور کچھ جرمانہ کر کے معاملہ رفع دفع کر دیا۔ جب آئی ٹی دنیا کے بے تاج بادشاہ شعیب احمد شیخ نے اپنے مد مقابل ٹی وی چینلوں کے مقابلے میںبول ٹی وی لانچ کرنے کا اعلان کیا تو سب چین سے تھے کہ یہ ٹی وی آبھی جائے تو ہماری ٹی آر پی اور ویور شپ توڑنا اسکے بس کی بات نہیں۔
اچانک جب شعیب احمد شیخ نے میڈیا انڈسٹری میں بڑے دھوم دھام سے آنے کی بات کی اور کہا کہ بول ٹی وی ایسا ٹی وی ہو گا کہ جس میں دنیا جہان کی ہر سہولت میسر ہوگی ۔ اسکی گاڑیاں ایسے ایسے ہونگی اور ملازمین کو یہ یہ سہولتیں میسر ہونگی وغیرہ وغیرہ اور پھر مختلف لوگو ں کو دعوت نامے بھجوائے اور ایک شاندار پروگرام کیا (جو شائد پاکستان کی تاریخ میں کسی نے سوچا نہیں تھا اور شاید اگلے پچا س سال تک سو چ پائے ) تواس وقت ملک کے بڑے دو تین نشریاتی اداروں کے نیچے سے زمین نکل گئی جب تمام بڑے اور چھوٹے نشریاتی اداروں کے ٹی آر پی میکرز اور مشہور اینکر پرسن بول ٹی وی کے پہلے پروگرام میں شعیب شیخ کی تقریر مگن ہو کر سننے لگے ، شعیب شیخ بولتا جا رہا تھا بلند و بانگ دعوے کرتا جا رہا تھا اور میڈیا انڈسٹری کے منجھے ہوئے ستون جھومے جارہے تھے کہ بس انکی زندگی بدلنے والی ہے اور قریب تھا کہ بدل بھی جاتی اور میڈیا او ر آئی ٹی کی دنیا میں ایسا انقلاب آتا کہ بے روزگاری کا ایک بڑا پورشن بول ٹی وی کور کر سکتا تھا پر کوکاکولا پیلا نے والنے ظالموں کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ بول ٹی وی لانچ کرنے کی تیاریاں ہی ہو رہی تھیں کہ اچانک ایف آئی اے اور چوہدری نثار صاحب کو جوش آگیا اور ایگزیکٹ اور بول کا سب کچھ مٹی میں ملا دیا۔
ا گر بول کی آمد سے حکومتی کام یا پالیسیوں میں فرق پڑھ رہا تھا تو عدالت کے دروازے کھلے تھے۔ بول اگر آتا تو پاکستان میں ایسا کیا بھونچال آ جاتا کہ رات کے اندھیرے میں بول کا صفایا کرنے کی ضرورت پڑھ گئی؟اگر تو معاملہ صرف باقی چینلز کی ریٹنگ متاثر ہونے کا ہے تو پھر حکومت کیطرف سے شدید اخلاقی زیادتی ہے بلکہ میڈیا کی آزادی پر بدنما قدغن ہے ۔شعیب شیخ نے کیا ایسی بڑی غلطی کی کہ جس کی سزا پاکستان کے بے روزگار نوجوانوں کو بھگنتا پڑھ گئی جنہوں نے اپنے روشن مستقبل کے لیے سنہرے خواب بھی سجالیے تھے۔
ملک دشمنی کی باتیں کرنے والوں اور ملک سے باہر بیٹھے بھارت سے ہاتھ ملانے والے غداروں کو تو معاف کیا جاسکتا ہے ۔میمو گیٹ ،پانامہ لیکس اور ہزاروں کرپٹ سیاسی نمائندے اوران جیسے ہزاروں میگا پروفائل کیسز پانی کے بلبلے کی نظر ہو سکتے ہیں توپاکستان میں آئی ٹی کی دنیا میں خوشحالی اور ترقی کی نئی لہر لانے والے شعیب شیخ کو کیوں نہیں ! ضرروت اس امر کی ہے کہ شعیب شیخ کے خلاف جعلی ڈگری والا کیس چلتا رہے اور اسے اپنا ٹی وی لانچ کرنے دیا جائے۔ وگرنہ آزاد میڈیا کا حکومتی نعرہ دھاندلی اور فریب تصور ہو گا!!۔
تحریر : شہزاد سلیم عباسی
0333-31 33 245
shahzadsaleemabbasi@gmail.com