بالی ووڈ اداکارہ سوارا بھاسکر نے گزشتہ ہفتے اپنی نئی ریلیز ہونے والی فلم “ویرے دی ویڈنگ” جو کہ میرے نزدیک ایک بی۔ گریڈ مووی ہے کے پاکستان میں ریلیز نہ ہونے پر پاکستان کو غیر سیکولر اور ناکام ریاست قرار دیا ہے۔ ان کے بیان کے بعد جب نہ صرف پاکستانیوں بلکہ بھارتی لوگوں نے بھی انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تو اور انہیں سوشل میڈیا پر کھری کھری سنائیں تو انہوں نے معافی مانگ لی اور کہا کہ پاکستان اور لاہور ان کے دل کے قریب ہے۔
سوارا بھاسکر ایک اچھی اداکارہ ہیں لیکن میرا ان سے تعارف تب ہوا جب وہ دنیا ٹی وی کے پروگرام مذاق رات میں آئیں اور انہوں نے پاکستانیوں اور بالخصوص لاہوریوں کی مہمان نوازی اور محبت کو دل کھول کر بیان کیا۔ اس کے بعد سے میں ان کا فین ہوگیا۔ سوارا بھاسکر نے پروگرام میں نہ صرف پاکستانیوں سے محبت کا اظہار کیا بلکہ اپنےسفر میں پیش آنے والے بہترین واقعات بھی شیئر کئے۔ اس سب کے دوران وہ نہائیت پرجوش لگ رہی تھیں۔ ان کے الفاظ نے شاید کچھ کم ہی بیان کیا ہو لیکن ان کی کھل کر ہنسی، آنکھوں اور ہاتھوں کو گھما گھما کر بات کرنے کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ پاکستان اور لاہور پر مر مٹی ہیں۔ انہوں نے خود بھی بار بار پاکستان واپس آنے کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ یہ محبت اور مہمان نوازی زندگی بھر نہیں بھولیں گی۔
لیکن انسان خطا کا پتلا ہے۔ وہ اپنی ہی کہی باتوں سے مکر جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ان سے بھی ہو گیا۔ وہی اداکارہ جو کچھ عرصہ پہلے پاکستان پر مر مٹی تھیں اب جب پاکستان نے ان کی ایک بے ہودہ اور انتہائی فحش جملوں اور سین پر مبنی فلم پر بین لگایا تو انہیں یاد آ گیا کہ پاکستان ایک غیرسیکولر ملک ہے کیوں کہ وہاں فحش فلمیں یا بی گریڈ فلمیں سینما میں نہیں دکھائی جاتیں۔ اگر ایسا کرنے سے سیکولرازم کا درجہ ملتا ہے تو وہ بھارت کے پاس ہی رہنے دیں، ہمیں نہیں چاہئیے۔
ویسے سوارا بھاسکر نے انہتائی سیکولر بھارت میں ہونے والے ایک ریپ کیس پر ٹویٹ کی جس پر انہیں کافی زیادہ ٹرول کیا گیا اور ہندو مخالف بھی قرار دیا گیا تھا۔ شائد سوشل میڈیا پر شوشے چھوڑنا ان کی عادت ہے تو ہم بھی ان کی عادتوں کو چھوڑ کر اب ذرا فلم پر بات کر لیتے ہیں۔
ویسے تو فلم ویرے دی ویڈنگ دیکھنے کے بعد سوچا تھا اس پر کچھ نہیں لکھوں گا لیکن سوارا بھاسکر کی ایک ٹویٹ نے مجھ پراحسان کیا اور اب میں یہ بلاگ لکھ رہا ہوں ورنہ فلم میں ایسا کچھ نہیں جس پر لکھا جائے۔
فلم کا مرکزی خیال خواتین کو بااخیتار بنانے سے متعلق ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بھارت، پاکستان اور اس خطے کے دیگر ممالک میں خواتین کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خواتین کیسا اختیار یا کیسی آزادی چاہتی ہیں؟ کیا سگریٹ اور شراب پینا، نیم برہنہ کپڑے پہننا اور مردوں کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرنا ہی خواتین کی آزادی ہے؟ اگر نہیں تو بالی ووڈ فلم ویرے دی ویڈنگ میں تو خواتین کیلئے ایسی ہی آزادی پیش کی گئی ہے اور اتنے ہی بھونڈے طریقے اور لغو ڈائیلاگز کے ذریعے پیش کی گئی ہے کہ میں کوئی ایک بھی ڈائیلاگ لکھ کر بیان نہیںِ کرسکتا۔ اگر میں میرا قلم یہ گستاخی کر بھی دے تو ایڈیٹر اس پر چھری ضرور پھیر دے گا۔
پاکستان نے فلم کی ریلیز پر پابندی کیوں لگائی، اس کا اندازہ مجھے فلم کا ٹریلر دیکھتے ہی ہوگیا تھا، آپ کو بھی ہوجائےگا۔ فلم دیکھنے کے بعد خوشی ہوئی کہ پابندی صرف اس لئے نہیں لگائی گئی کہ وہ بھارتی فلم ہے یا اس میں کچھ پاکستانی مخالف ہے بلکہ اس لئے لگائی گئی کہ وہ فلم ہمارے ملک اور معاشرے میں دکھانے کے قابل نہیں۔ اس میں کامیڈی کا تڑکا لگانے کیلئے اخلاقیات سے گرے ہوئے ڈائیلاگ اور مناظر پیش کئے گئے ہیں۔ ایسی فلمیں اکیلے یا یار لوگوں کے ساتھ دیکھنے والی ہیں، سنیما سکرین پر دیکھنے والی نہیں۔
اب میں نے فلم کی اتنی تعریف کر دی ہے، آپ کو تجسس تو ہو ہی رہا ہوگا تو کیوں نہ فلم کی کہانی بیان کردوں۔
فلم ویرے دی ویڈنگ چار دوستوں کے متعلق ہے جو سکول کے دور سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ اس فلم کی کہانی ان کی زندگی اور اس سے جڑے مسائل کے گرد گھومتی ہے۔ فلم میں کرینہ کپور کی شادی ہو رہی ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف سونم کپور کی شادی ہو ہی نہیں رہی ہوتی، سوارا بھاسکر کی طلاق ہونے والی ہوتی ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ طلاق کی وجہ نہ لکھنے کے قابل ہے اور نہ ہی دیکھنے کے۔ چوتھی اور آخری دوست شیکھا تسلاںی کی شادی ہوگئی ہوتی ہے لیکن والدین اسے قبول نہیں کرتے کیوں انہوں نے اپنی مرضی سے کسی انگریز کے ساتھ شادی کی ہوتی ہے، اسی لئے وہ اپنے والد سے ناراض ہیں۔
فلم کی کہانی تقریباً ایک گھنٹہ 20 منٹ یا شاید کچھ زیادہ انہی چار لڑکیوں کے زندگی کے حالات کو بیان کرتی ہے اور آخری کچھ منٹس مسائل کو سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے جو شاید اتنی تیز اور چٹکیوں میں کیا گیا ہے جیسے کسی نے چھڑی گھمائی ہو اور مسائل حل ہو گئے ہوں۔
ایسی فلم میں کام کرنے کے بعد پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دینا کچھ ایسا لگتا ہے جیسے اپنی ہی ناکامی پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہو۔