تحریر: وسیم رضا
فرانس میں دہشت گردی کے حالیہ واقعہ کے بعد یورپ کے تمام ملکوں میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے، گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے جریدے چارلی ہیبدو کے دفتر پر حملے میں کار ٹو نسٹوں سمیت اخبار کے آتھ ملازمین کی ہلاکت نے یورپی ممالک کے حساس اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو ا انتہائی چوکنا اور متحرک کر دیا ہے، انٹرنیشنل میڈیا علیحدہ ادھار کھائے بیٹھا ہے ۔ دہشت گردی کے فروغ اور انتہا پسندی کی حمایت کی روک تھام کے لئے ان اداروں نے ترسیل اور تبادلہ خیال کے دیگر زرائع کے علاوہ سوشل میڈیا کے معروف پلیٹ فارم فیس بک کی نگرانی شروع کی تو اٹلی کے انتہائی شمالی شہر بولزانو کا ایک پاکستانی نوجوان عثمان ریان خان ان کا پہلا نشانہ بنا۔
عثمان کو گرفتاری کے فوری بعد خصوصی قانون کے تحت پاکستان ( اسلام آباد) جانے والی پہلی میسر فلائٹ میں ملک بدر کردیا گیا ہے، دو دن قبل عثمان خان جو بولزانو شہر میں آزادی سے گھومتا پھرتا تھا آج و ہ اچانک وہاں اپنے پاکستان لوٹنے سے متعلق سوالات کے جواب دیتا پھر رہا ہو گا اور یہاں چند دن بعد لوگ سب بھول بھال جائیں گے۔ کون عثمان ؟ شاید اس نوعیت کے سوال کرنے تک کا کسی کے پاس وقت نہ ہو گا، عثمان شاید اب اٹلی کی سر زمین پر کبھی واپس نہ لوٹ سکے، لیکن وہ اپنے پیچھے ہمارے لئے ایک سوال چھوڑ گیا ہے، اور یہی وہ سوال ہے جو آج کے میرے اس کالم کا موضوع ہے۔
درمیانے قد اور پکے رنگ کا حامل عثمان ایک خوش مزاج نوجوان تھا، چہرے پر داڑھی تھی ، نماز بھی پڑھتا تھا ،وہ تنہا ئی پسند نہیں تھا اپنے ، ہم جنسوں کے گروہ میں اٹھنے بیٹھنے کا قائل تھا، اپنی وضع قطع سے عجیب بالکل نہیں لگتا تھا ، سجورنو اور دیگر ڈاکومنٹس ریگولر تھے کمونے کا باقاعدہ ریزیڈنٹ تھا، دیگر مشاغل کے علاوہ فیس بک استعمال کرتا تھا ، اپنے فیس بک پروفائل پر وہ ایک مزہبی اور جزباتی یوزر کے طور پر ابھر کر سامنے آتا تھا ، مزہبی جزباتیت کئی جگہ جنونیت کی شکل بھی ا ختیار کر جاتی تھی مثلا اس نے اپنے پروفائل پر اسلامی ریاست کا پرچم لگا رکھا تھا
جہادیوں کے ہاتھوں مغربی ممالک کے مغویوں کی وڈیوز چڑھا رکھی تھیں ، اس نے کئی ایسے پیغامات بھی نشر کئے تھے جس میں جہادیوں کی تعریف کی گئی تھی اور جہادیوں کے ساتھ مل کر مغرب کے غیر مسلموں کے خلاف جہاد کرنے کی طرف راغب کرنے کی باتیں کی گئی تھیں ، عثمان خان کی شخصیت کے اس رخ سے خفیہ ایجنسیوں کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے عثمان کی نگرانی شروع کردی، گزشتہ ہفتے مزکورہ بالا جریدے کی جانب سے ایک بار پھر آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خانے شائع کئے گئے
تو عثمان نے اپنے فیس بک پروفائل پر پھر اپنا ردعمل ظاہر کیا اور ان کو کافر قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف جہاد کرنے کی بات کی تو ا ینٹی مافیا ایجنسیاں حرکت میں آئیں اور عثمان کو فورا حراست میں لے لیا، اسی دن مقامی اٹالین اور جرمن اخبار میں عثمان کی گرفتاری کی خبریں شائع ہوئیں ، ہمارا خیال تھا کہ عثمان سے پہلے تحقیقات ہوں گی ، کیس ہوگا پھر مقدمہ چلے گا ، میں اپنے فوٹو گرافر کے ساتھ عثمان کا انٹرویو کرنے اور اس کا موقف جاننے کے لئے اس تک رسائی کے لئے اپنے زرائع کا استعمال کر ہی رہا تھا کہ خبر ملی کی عثمان کو ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے ۔
عثمان کی گر فتاری اور اور ملک بدری کے پس منظر میں ہمارے لئے ایک نصیھت ہے اور وہ یہ کہ سوشل میڈیا کے تما م فورمز پر کسی بھی پوسٹ کو آگے ارسال کرنے یا کمنٹس پاس کر نے سے پہلے ا حتیاط کریں کہ سوشل میڈیا پر ہماری زرا سی بے ا حتیاطی ہمارے خلاف بطور ثبوت استعمال ہوسکتی ہے خواہ وہ ہماری زاتی رنجش ، اختلاف رائے اور اس کے نتیجے میں کوئی دھمکی آمیز میسج ہی کیوں نہ ہو یوں ہم تارکین وطن جس ملک میں بھی مقیم ہیں وہاں سے ہماری بے دخلی کا موجب بن سکتی ہے، اس بات کا اچھی طرح زہن نشین کر لیں کہ چارلی ہیبدو کی آزادی رائے کی طاقت اور عثمان ریان کے کمزور نقطہ نطر میں زمین آسمان کا فرق ہے ، ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کے قوانین کی پاسداری ہی میں ہماری عافیت ہے ۔
تحریر: وسیم رضا