تحریر : بدر سرحدی
نومبر ٢٠١٤ میں واہگہ بارڈر پر ہونے والے دھماکہ جس میں ٦٠ ،سے زائد معصوم پاکستانی مارے گئے تب ۔بھی لکھا تھا ،کے خود کش بمبار آسمان سے اترا یا زمین سے اوپر نہیں آیا ،وہ یہاں تک کیسے پہنچا ،اِس سے قبل بھی لکھا تھا کہ دہشت گرد اپنے ٹھکانوں سے نکل کر ملک میں سہولت کاروں ،یا ہماری آسینوں میں چھپے بیٹھے ہیں جبکہ فوج انہیں پہاڑون اور غاروں میں تلاش کر رہی ہے اور پہاڑوں پر بمباری کر رہی ہے ،مگر وہ تو پہلے ہی ہماری آستینوں میں چھپ گئے ہیں ،جو خفیہ اداروں کی نظروں سے بہت دور ہیں اب اسٹیشن کی طرف سے آنے والوِ ں کو بھی چک کیا جاتا ہے ریلوے ہیڈ کوارٹر کے سامنے پولیس کا ناکہ ہے ،اور اسٹیشن کی طرف جاتے ہوئے بھی پولیس لائن سے پہلے ناکہ ہے ،تو پھر یہ بم بار اُن کی نظروں سے چھپ کر ٹارگٹ تک کیسے پہنچاخیال رہے دوراستے کھلے تھے ،ایک ڈیورنڈ روڈ سے گلیوں سے دربار بی بی پاک دامن سے ہوتے ہوئے ایمپرس روڈ، اور دوسرا علامہ اقبال روڈ سے ریلوے ہیڈ کوارٹر میں سے گذر کر ایمپرس روڈ تک ، مگر بمبار ان راستوں سے قطعی واقف نہیں تھا وہ تو روبوٹ ہوتا ہے اُسے کوئی سہولت کار انگلی پکڑ کر ٹار گٹ تک لاتا ہے زمین سے نکلا یا آسمان سے نہیں اُترا… وزیر اعظم کہتے ہیں کوئی دوسرا آپشن نہیں دہشتگردوں کے مقدمے فوجی عدالتوں میں چلیں گے ابھی تو صرف دو ماہ ہوئے ہیں ….!!
عسکری و سیاسی قیادت ایک صفحہ پر ،دہشتگردی کے خلاف جنگ ہر صورت جیتنا ہے ،چاہے پچاس ہزار عوام اور مارے جائیں،چیف آف آرمی اگلے دن کابل میں افغان صدر سے ملے اور کہا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغانستان کے ساتھ کھڑے ہیں ،کسی کو بھی دوسرے ملک کے خلا ف اپنی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ….چیف صاحب اس کا مطلب ہے کہ اب تک وہ آپ سے اجازت لے کر کاروائی کرتے آئے ہیں …نہیں جناب،انہیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت ہی نہیں وہ جب چاہیں جہاں چاہیں بم بلاسٹ کر سکتے ہیں ، ابھی پولیس لائنز دھماکہ زیر بحث ہے شواہد اکٹھے کئے جا رہے ہیں کہ اسلام آباد میں امام بار گاہ پر دھماکہ ہو گیا ان کے لئے کوئی مقام سیکیور نہیں پولیس لائنز خود کش دھماکے کی زمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کر لی ہے ،تاریخ کی شائد پہلی جنگ ہے کہ ایک طرف بہترین تربیت یافتہ جدید اسلحہ سے لیس فوج ، ضرب عضب پر اب تک بقول وزیر خزانہ چالیس کروڑ ڈالر خرچ ہو چکے ہیں مزید ایک ارب ڈالر خرچ ہونگے،
دوسری طرف ایک نظریہ سے لیس جنگجو جنہیں اسلحہ سے شکست نہیں دی جاسکتی کہ یہ نظریہ کی جنگ ہے ،اور پھر سادہ کپڑوں میں سہولت کار ہم میں سے ہیں جنکی شناخت نہیں …مقام فکر ہے انٹیلی جنس اور دیگر ادارے یہ اطلاع دیتے ہیں کہ خود کش بمبار شہر میں داخل ہو چکے ہیں مگر وہ یہ بتانے سے عاجز ہیں کہ یہ بمبار کس سنٹر میں تیار ہوتے ہیں اور انکی تیاری میں کتنا وقت لگتا ہے اور پھر شہر تک کیسے اور کس ذریعہ سے پہنچتے ہیںمحض تکا لگا تے ہیں وزارت داخلہ یہ اطلاع آگے پہنچا دیتی ہے اور بری الزمہ ہو جاتے ہیں،اگر انٹیلی جنس اتنی ہی فعال ہے تو اُس مقام کی نشاندہی کرے جہاں یہ پنیری تیار ہوتی ہے ، کہ صرف پاکستان ہی میں یہ بم بار تیار ہوتے ہیں ،کیونکہ یہ ٹیکنولوجی کسی اورملک کے پاس نہیں، یہ کہا جائے کہ بھارت سے یا اسرائیل سے در آمد کئے جاتے ہیں ،تو غلط اور خود کو دھوکا دینا ہے …
اِس ایک بمبار کی تیاری پر کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا محض چند دن میں بمبار تیار ہو کر ٹار گٹ تک پہنچا دیا جاتا ہے یہ کہنا غلط ہو گا کہ ادارے لاعلم ہیں انہیں علم ہے کہ بمبار کہاں اور کیسے تیار ہوتے ہیں مگر مصلحت کوشی نے تالے لگا رکھے ہیں …. یہ بمبار توہرگز دہشت گرد ی کے زمرے میں نہیں آتے کہ انہیں تو یہ علم ہی نہیں ،کہ وہ کون ہے اور کہاں جا رہا ،وہ ہپناٹائز کردئے جاتے ہیں، کہ آج تک کسی بمبار کی جننے والی نے سامنے آکر یہ نہیں کہا کہ میرا بیٹا شہادت کے مرتبے پر فائز ہو گیا،نہ قبر نہ مقبرہ نہ کوئی رونے والا سامنے آیا ،یہ یتیم اور لاوارث ہوتے ہیں جنہیں …..اصل دہشت گرد تو وہ ہیں جن کے ہاتھ میں اُ ن کی تاریں ہوتی ہیں ،ضرورت ہے کے تمام دستیا ب وسائل استعال کرتے ہوئے بمبار کی ماں کو مارا جائے کے وہ بمبار پیدا نہ کر سکے ، محض پہاڑوں پر بمباری کرنے سے یا گرفتاریوں سے دہشتگردی یا دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن نہیں ، اور پھر مار آستین کا سر کچلنا تو بہت ہی مشکل کام ہے،
دہشت گردوں کو شکست دینے کے لئے ، سہولت کاروں کی تلاش بھی از بس ضروری ہے تاکہ مگر یہ کام بھی قدرے مشکل ہے کہ یہ بھی پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں ان دہشت گردانہ کاروائیوں کے خوف سے لاہور میں عمارتوں کا حُسن گہنا دیا ہے سڑکیں بند عمارتوں کی فصیلیں اونچی اور خاردار تار لگا دئے اس عرصہ میں خار دار تاریں بنانے والوں کا کارو بار خوب چلا ہے ،پنجاب اسمبلی کی خوبصورت عمارت بیس پچیس برس قبل سمٹ منار دیکھنے کے لئے لوگ آتے کے نیچے میوزم دیکھتے اور لان میں بیٹھ کر سستاتے مگر آج یہ عمارت اونچی دیواروں اور خار دار تاروں سے ڈھانپ دی گئی ہے لاہور کینٹ چاروں طرف سے سیل ہے حتیٰ کہ CMH ,، لاہور بھی مارے خوف کے سیل کر دیا ہے،
شامی روڈ سے CMHکی طرف جانے والا راستہ دیوار بنا کر بند کر دیا ,اور ہر وقت فوجی گشت کرتے نظر آتے ہیںایسا خوف تو ٦٥ء اور ٧١ء کی پاک بھارت جنگ کے دنوں میں بھی نہیں دیکھا ،جو آج دیکھا جا رہا ہے کہ ملک کی فضائیں بھی خوفزدہ ہیں ….،دہشت گرد وہ آکاس بیل ہے جو سبزہ تو کیا سوکھی جھاڑیوں کو بھی چٹ کر رہی ہے ،حادثہ کے بعد محض شواہد اکٹھے کرنا یا ڈی این ٹیسٹ ،کروانا ….دیکھنا یہ ہے کہ بمبار وہاں کیسے پہنچا ،کون لایا
تحریر : بدر سرحدی