تحریر: ابنِ نیاز
کچھ خمار ایسے ہوتے ہیں جو آپ کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جنھیں آپ جتنا بھلانا چاہیں، وہ اتنا ہی آپ کی زندگی میں آپ کے ہر پل میں ، ہر لمحہ میں آپ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ یہ خمار پہلی شراب کا ہو، سگریٹ کا پہلا کش ہو، یا پہلی کافی کا آخری گھونٹ، ہر اک کا الگ سا خمار ہوتا ہے۔ ان سب سے الگ ایک خمار کتاب کا بھی ہوتا ہے، جس کو چڑھ گیا، پھر اترا نہیں۔ اترے بھی کیسے کہ کتاب کا نشہ، خمار ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور خمار کی بات ہو رہی ہے، چسکے کی نہیں۔ جس نے کتاب سے دوستی کر لی، پھر اس کی دوستی شاید ہی کسی اور چیز سے ہو۔ کتاب چیزہی ایسی ہے کہ نشہ چڑھتا ہے اور چڑھتا جاتا ہے۔ کیونکہ جو کہا گیا کہ کتاب تنہائی کی بہترین ساتھی ہے تو واقعی ہے۔ یہ آپ کو بور نہیں ہونے دیتی۔ یہ آپ کو کمبل کے اندر گرم رکھتے ہوئے محلہ، گائوں ، شہر ، ملک ملک کی سیر کراتی ہے۔
آپ کی واقفیت ان ان جگہوں سے کراتی ہے جہاں کے بارے میں آپ نے شاید خوابوں خیالوں میں بھی نہ سوچا ہو ۔پھر یوں ہوتا ہے کہ آپ کسی ایک ملک کے دس سفر نامے پڑھ کر گیارھواں خود لکھ لیتے ہیں، اور وہ ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے۔ کیونکہ جب دس کتابوں کا بہترین نچوڑ نکال کر عرقی ریزی کی جائے گی تو ظاہر ہے وہ نقل یا چربہ ضرور ہو گی لیکن بہترین ہو گی۔ ہماری قسمت میں البتہ اس طرح کی عرق ریزی ہر گز نہیں۔کیونکہ ہم جس موضوع پر کتاب پڑھتے ہیں وہ دس کی تعدا د ابھی تک پوری نہیں ہو سکی کہ ہم بھی کسی مصنف کی صف میں شامل ہو سکیں۔لیکن ہمیں یہ اعزاز ضرور حاصل ہے کہ ہمیں دوستی کا خمار ضرور چڑھتا ہے۔یہ وہ خمار ہے جو بچپن سے چڑھا اور ایسا چڑھا کہ آج تک اترا ہی نہیں۔
دوستوں میں عمر کی کوئی قید نہیں تھی۔ سکول میں اپنے سے اگلی جماعتوں والے بھی دوست تھے تو ہم جماعت تو تھے ہی۔ کالج میں سکول کے جو دوست بنے وہ تو قائم رہے، جن سے صرف گپ شپ تھی، ان سے ملاقات بھی ہوجاتی تو بہت تھا۔پھر یونیورسٹی اور پھر عملی زندگی کا آغاز۔ لیکن نئے سے نئے دوست بنانے کا خمار ، چھٹتی نہیں ہے یہ کافر منہ کو لگی ہوئی۔ کتابوں کے بہانے دوست بنے۔ کسی کے ہاتھ میں کوئی کتاب دیکھی، اس سے بات چیت شروع کر دی۔ کسی کو کسی کتاب پر تبصرہ کرتے دیکھا، اس سے دوستی ہو گئی۔ کسی نے پوچھ لیا کہ کیا ہو رہا ہے، جواب دیا کہ کتاب پڑھی جا رہی ہے، دوستی ہو گئی۔ یہ الگ بات کہ کچھ دوستیاں زندگی بھی خراب کر بیٹھتی ہیں۔ اپنی بھی اور آپ کی بھی۔ بھلے آپ زمانے سے لڑتے پھریں، اپنے آپ سے لڑتے پھریں، اپنے آپ کو دنیا بھر کے سامنے پر سکون ظاہر کریں، لیکن جن دوستوں نے وہ چرکہ لگایا ہوتا ہے، وہ رفو بھی نہیں ہوتا۔
بات کہاں کی کہاں نکل گئی۔ بات ہو رہی تھی دوستی کی۔ پھر نئی ٹیکنالوجی آئی۔ انٹرنیٹ کی ٹیکنالوجی۔ جس کی بدولت دنیا واقعی ایک گلوبل ویلج یعنی کائناتی گائوں بن گئی۔جس طرح ایک گائوں میں رہنے والے افراد کو دوسروں کے حالات کا کافی حد تک علم ہوتا ہے، کم از کم وہ حالات جو چار دیواری سے باہر اس کو پیش آتے ہیں۔ اسی طرح اس گلوبل ویلج میں جب رابطے بڑھنے لگے تو بڑھتے بڑھتے دوستی تک پہنچ گئے۔ ایک کنویں کا مینڈک بھی کنویں سے باہر کے حالات سے یوں باخبر رہنے لگا جیسے وہ اپنی آنکھوں سے واقعات کو وقوع پذیر ہوتے دیکھ رہا ہو۔بس ہماری حالت بھی اس کنویں کے مینڈک جیسی تھی۔ افریقہ کے کسی دور افتادہ ملک میں ہونے والے واقعے کو نیٹ سے پڑھ کر، کوئی چھوٹا موٹا کلپ دیکھ کر دیگر عوام الناس پر خوب رعب ڈالا۔ کہ نیٹ ہمارے پاس تھا، ہمارے ہمسائیوں کے پاس نہیں۔لیکن کب تک؟ دنیا سکڑتی جا رہی تھی۔ اور مواصلاتی ٹیکنالوجی پھیلتی جا رہی تھی۔ یوں نیٹ پھر گھر سے گلی میں پھر محلے میں اور پھر ملک میں پھیلنے لگا۔ پھر یوں ہو ا کہ نیٹ کیفے کھل گئے۔ جنھوں نے اس کا مثبت استعمال کیا، انھوں نے فائدہ ہی اٹھایا۔ جنھوں نے منفی استعمال کیا، آج وہ اپنی جوانی کو رو رہے ہیں۔
ہمیں ٹھہرا شوق پورے پاکستان کی سیر کا۔ ہمارا جیب خرچ ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ ہم یہ کارنامہ سر انجام دے سکیں۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ نیٹ پر پاکستان بھر کی عوام سے رابطے رکھے گئے۔ جن کو ہم نے مختلف فورمز پر ڈھونڈا۔ان سے ان کے شہر کے اندر کے حالات جانیں۔ اگر کسی شہر کے بارے میں کچھ سنا ہوا تھا تو اس کی تفصیلات ان سے معلوم کیں۔ یوں انسائیکلو پیڈیا میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس گپ شپ کے دوران کچھ لوگوں سے دوستی ہو گئی۔ ایسے دوست بنے کہ پھر شہر شہر نہ رہا، بلکہ گائوں بن گیا۔ ایک دوسرے سے ملنے کے بہانے ڈھونڈے گئے۔ کافی دوست ملے، خوشی کا اظہار ہوا۔ اگرچہ پہلی ملاقات ہوتی تھی، لیکن اگر اتفاق سے اس ملاقات میں چار پانچ دوست اکٹھے ہو گئے تو ارد گرد دیکھنے والوں کو ہر گز یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ ہم دوست زندگی میں پہلی دفعہ مل رہے ہیں۔ یہ سب اس ٹیکنالوجی کا کمال تھا۔
آپس میں تحفے تحائف کا تبادلے ہوئے۔ دوستیوں کے رشتے مضبوط ہوئے۔لیکن کیا عجب ہی بات ہے کہ ان ہی دوستوں میں کچھ ایسے بھی ٹھہرے، جنھوں نے صرف بات چیت کی حد تک ہی دوستی اختیار کی۔ فورم کی دنیا میں تو انھوں نے بہت کچھ حامی بھری،لیکن جب کبھی ان سے بات ہوئی، اگر کسی کام کا کہا گیا تو انھوں نے کبھی ایک بہانہ بنایا، کبھی دوسرا۔ لیکن اس بات پر اگر کوئی برا مانے تو یہ اس کی غلطی ہو گی کہ کون سا یہ دوست ا سکا لنگوٹیا تھا، یا محلے گائوں کا تھا۔لیکن پھر بھی ایک بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔ کچھ لوگ ایسے بھی دوست بنے جن سے نہ کتاب کی دوستی ہوئی، نہ ٹیلی فون کی دوستی۔ نہ کبھی فون پر بات ہوئی، نہ کبھی سکائپ یا کسی اور ذریعے سے۔ لیکن وہ پھر بھی دل کے قریب ہو گئے۔ کیونکہ وہ کسی فورم پر جو کچھ کہتے تھے وہ ان کے دل کی آواز ہوتی تھی۔ وہ دل سے لکھتے تھے، دل سے کہتے تھے۔ ان کو اگر ملک میں ہونے والا کوئی کام اچھا نہیں لگتا تھا، اور حقیقتاً بھی وہ ملک کے عام مفاد میں نہیں ہوتا تھا تو اس کو دھڑلے سے للکارنا ان کی سرشت میں شامل تھا۔ انھوں نے ہاتھ بڑھایا، ہم نے بازو تھام لیا۔
انھوں نے بازو واہ کئے، ہم نے جادو کی جھپی ڈال لی۔ ایسے دوستوں کا خمار ہم پر ایسا جادو کر گیا کہ اب کہیں بھی کوئی بھی اس خمار کا نام لیتا ہے تو ہمارے کان تو کیا جسم کے سارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ ایسے ہی دوستوں میں ایک نام سون نین مخمور کا بھی ہے۔ ان سے کمپیوٹر کی بورڈ کی حد تک ہی ہم سے دوستی ہے یا ہماری ان سے دوستی ہے۔ لیکن اسی کی بورڈ کو استعمال کرتے ہوئے وہ جب ظالم کو للکارتے ہیں تو ہمیں سلطان راہی یاد آجاتا ہے۔ یہ اور بات کہ ان کی اور سلطان راہی مرحوم کی للکار میں بہت فرق ہے۔ مرحوم پردئہ سکرین پر للکارتے تھے اور پھر ایک بندوق سے جس میں بیس پچیس گولیاں ہوتی تھیں پچاس ساٹھ دشمن مرتے تھے ، اسکے باوجود کہ گولیوں کی اکثریت دشمن کے اردگرد سے گر اڑاتی تھی۔
جب کہ ہمارے یہ سون نین مخمور کی للکار اگر کسی دن حقیقتاً ایوانوں میں پہنچ گئی تو پھر دو ہی باتیں ہوں گی کہ یا تو ان کی باتوں کو کڑوا سچ سمجھتے ہوئے ان کے لکھنے پر پابندی لگا دی جائے گی، یا پھر ان کی تحریروں کو قبول کرتے ہوئے ان پر عمل کیا جائے گا۔ ہماری تو دل سے دعا ہے کہ ان کی تحریروں کو اللہ پاک دوام بخشے اور پڑھنے والوں کے دل پر اثر کرے، اُن کو اِ ن پر عمل کی توفیق نصیب ہو۔ اور ہمیں اپنے سر نوید مخمور کا باقاعدہ مرید بننے کا شرف حاصل ہو۔
سون نین مخمور کی پیروی کرتے ہوئے ہم نے بھی کڑوا سچ لکھنے کی کئی مرتبہ کوشش کی ،لیکن پھر بھی مصلحتوں کا شکار ہو کرہم نے ہر تحریر میں ڈندی مار ہی ڈالی۔اسی لیے ہماری کسی تحریر میں وہ اثر ہر گز نہ ہوا، جو سون نین مخمور کے قلم کا سحر ہے۔ ہماری ہر اس طرح کی جدو جہد پر اس وقت پانی پھرا، جب ہم نے سچ سے راہِ فرار اختیار کی۔ اور سچ کہوں تو یہ صرف ہم ہی نہیں ہیں راہِ فرار اختیار کرنے والے۔ ہماری اکثریت لکھاریوں کی ، کالم نویسوں کی، مضمون نگار یا فیچر نگاروں کی ایسی ہی ہے، جو سچ کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جھوٹ کے وہ طورمار باندھتے ہیں کہ پھر یہ جھوٹ کے رات کو سورج نکل کر چار سو گرمی کا قہر برسا رہا تھا، سچ ہی سچ محسوس ہوتا ہے۔
خدارا، سچ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اور جو سچ ہے اسے ہی عوام تک پہنچائیں۔ سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ ہر گز نہ کریں۔ سچ کو بیان کرنا گواہی دینا ہے۔ اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں: ” اور تم گواہی کو مت چھپائو۔اور جو اسے چھپائے گا اس کا دل گناہگار ہوگا۔اور تم جو کچھ کرتے ہو، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔” سورة البقرہ۔ آیت۔ ٢٨٣۔ یعنی سچ بات لکھنا، سچ بات کہنا، سچ بات بیان کرنا فرض ہے۔ کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ اور ہمارے دوست سون نین مخمور یہی کام کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم بھی اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے سمیت، ہمارے سب دوست احباب کو ہمیشہ حق سچ بات کہنے کی ، کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین، ثمہ آمین۔
تحریر: ابنِ نیاز