مجھے کتابیں اچھی لگتی ہیں اور کتابی چہرے بھی اچھے لگتے ہیں۔ میں کئی محترم خواتین و حضرات سے رابطہ رکھتا ہوں۔ میں انسان کے انسان کے ساتھ رابطے کو بہت اہمیت دیتا ہوں۔ میرے محبوب و محترم رسول کریم حضرت محمدﷺ نے اپنے ہر ساتھی سے پیار کیا جو آپ کا ساتھی نہیں تھا اس سے بھی محبت رکھی۔
دیار عرب میں کوئی کتاب نہ تھی۔ آپ کتاب لے کے آئے۔ قرآن مجید کا خطاب انسانوں کے ساتھ ہے اور پھر مسلمانوں کے ساتھ۔
اللہ نے جن لوگوں کو کتابی چہرہ دے کے بھیجا ہے وہ اللہ کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ میری گذارش ہے کہ کتابیں پڑھو اور کتابی چہرے بھی پڑھو۔ میرا ایک جملہ ہے کتابیں گھروں کی طرح ہوتی ہیں ان میں رہا کرو۔ حضور کریم جو کتاب لائے، قرآن مجید، وہ ان کو تنہائی میں اور خاموشی میں ملی۔ وہ غار حرا میں تنہا ہوتے تھے اور خاموش۔ خاموشیاں اور تنہائیاں بولتی ہیں۔ ان کو اچھی طرح سننا میرے محبوب رسول کریمﷺ کو آ گیا تھا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ حضور کو جو کچھ ملا تنہائی سے ملا اور خاموشی سے ملا۔ میں یہ کہا کرتا ہوں کہ دنیا میں دو نعمتیں ہیں۔ تنہائی اور تشنگی، تنہائی غار حرا کی اور تشنگی کربلا کی۔
میرے پاس محترم ملک مقبول احمد تشریف لائے۔ ان کے پاس بہت سی کتابیں تھیں جو وہ مجھے تحفے کے طور پر دے گئے۔ ملک صاحب دل کے بھی بڑے آدمی ہیں۔ میرے بارے میں فیصل آباد کی بیٹی شاہدہ تاج نے کتاب لکھی ہے جو ملک صاحب نے بہت محبت سے شائع کی ہے۔ اتنے اچھے دل والے محترم دوست کے لیے میرے دل زار میں بھی محبتوں کا گلزار ہے۔ کتاب کا نام ہے ”ڈاکٹر محمد اجمل نیازی…. شخصیت، فن اور خدمات“ کتاب میں عرفان صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، افتخار مجاز، عبدالسلام عاصم اور شاہدہ تاج کی آراءشامل ہیں۔
شاہدہ تاج نے میرے بارے میں لکھا ہے ”ڈاکٹر اجمل نیازی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ انہوں نے شاعری میں اپنے جوہر دکھائے۔ بحیثیت کالم نگار بھی ایک خاص مقام اور مرتبے کے حامل ہیں۔ انہیں معاصر ادبی منظر نامے پر نظرانداز کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ کالم نگاری میں گراں قدر خدمات سرانجام دینے پر انہیں ستارہ امتیاز دیا گیا۔ دانشور اور تجزیہ نگار ڈاکٹر بابر اعوان کی سفارش پر ’صدر‘ زرداری نے عطا کیا تھا۔“
شاہدہ تاج نے ایم اے کے لیے میرے بارے میں مقالہ تحریر کیا۔ اس طرح کے کئی مقالے مختلف تعلیمی اداروں میں لکھے گئے ہیں۔ شاہدہ تاج نے اسے شائع کرنے کی فرمائش کی تھی۔ ملک مقبول صاحب نے مہربانی کی انتہا کر دی۔ مقالے کی اشاعت کے لیے شاہدہ تاج نے مجھ سے کہا۔ برادرم عبدالستار عاصم نے اسے شائع کرنے کی کوشش کی۔ عاصم ملک مقبول کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں۔ ملک صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے مقبول اکیڈمی سرکلر روڈ چوک اردو لاہور کی طرف سے بہت بہترین انداز میں بڑی محبت سے شائع کیا ہے۔
میں آج چند کتابوں کا ذکر کر رہا ہوں تو اپنے لیے اس کتاب کا ذکر کر دیا ہے تاکہ محترم ملک مقبول صاحب کی محبتوں کے لیے شکریہ ادا کر سکوں۔ اس کے بعد پہلے نمبر پر میرے پاس ملک مقبول احمد کی کتاب ہے۔ ”نیا علم شفا بخشی“ یہ کتاب بہت سادہ اور مفید ہے۔ یہ کتاب ہر آدمی کو پڑھنا چاہیے اور پھر اس پر عملدرآمد بھی کرنا چاہیے۔ یہ بہت مفید کتاب عبدالستار عاصم اور ان کی اہلیہ کنول عاصم کے نام ہے۔ پہلے صفحے پر قرآن کریم کی یہ آیت موجود ہے جس کا ترجمہ ہے ”جب میں بیمار پڑتا ہوں تو میرا اللہ ہی مجھے شفا دیتا ہے۔ یہ بہت مفید کتاب ہے۔ کتاب کے مصنف لوئی کوہنی ہیں۔ ملک صاحب نے لکھا ہے کہ اصل کتاب مصنف کی زندگی میں ایک سو پچاس (150) بار شائع ہوئی ہے۔ اس کا ترجمہ دنیا کی پچیس (25) زبانوں میں شائع ہوا اور ترجمہ جس کی تلخیص پیش کی جا رہی ہے مارچ 1931ءمیں آٹھویں بار شائع ہوئی تھی۔ ملک مقبول احمد نے اسے چار پانچ بار شائع کیا ہے۔
محمد فاروق چوہان نے گردش ایام کے نام سے بڑی ضخیم کتاب لکھی ہے۔ تقریباً چھ سو (600) صفحات پر مشتمل یہ کتاب قلم فاﺅنڈیشن کے زیراہتمام شائع ہوئی ہے۔ عالم اسلام کے عظیم مفکر نامور عالم دین اور مذہبی و سیاسی رہنما سید ابوالاعلیٰ مودودی اور میر شکیل الرحمن کے نام انتساب کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان، بانو قدسیہ، سنیٹر سراج الحق، الطاف حسن قریشی، عطاالرحمن، ملک مقبول احمد جبار مرزا ڈاکٹر اجمل نیازی، شفیق الرحمن مفتی محمد وحید، عبدالستار عاصم اور ارشد نسیم بٹ نے چوہان صاحب اور ”گردش ایام“ کے لیے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
ایک اور ضخیم کتاب بہت مختلف اور بامعنی نام والی کتاب ہے۔ ”سب سے بڑی جنگ“ کے نام سے کتاب احفاظ الرحمن نے شائع کی ہے یہ کتاب مجھے بہادر اور قربانی والے بے نیاز اور محبوب دوست خاور نعیم ہاشمی نے عطا کی ہے۔ اس نے کتاب کے آخر میں کوڑے کھانے والی صحافی کے نام سے دو (2) صفحات پر مشتمل ایک دلگداز تحریر لکھی ہے۔ وہ خود بھی کوڑے کھانے والے ایک نڈر صحافی ہیں۔ خاور نعیم ہاشمی نے بتایا کہ اس کتاب کا نام بہت موزوں ہے۔ اسے آزادی اظہار کے لیے پاکستان میں سب سے بڑی جنگ قرار دیا ہے۔ اس میں ہر صحافی کا نام موجود ہے جو کسی نہ کسی طرح اس لرزہ خیز جدوجہد میں شریک تھا۔ کتاب کے مصنف احفاظ الرحمن نے بھی آزادی اظہار کی اس جدوجہد میں حصہ لیا اور اذیتیں برداشت کیں۔ یہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جس میں آف دی ریکارڈ باتیں بھی ہیں۔ یہ کتاب پڑھنے کے قابل ہے۔
میں یہاں تک پہنچا تھا کہ کالم کی ایک خاص طوالت میرے لیے رکاوٹ بن گئی۔ جو کتابیں میرے لیے دلچسپی رکھتی ہیں ان میں ”ساغر صدیقی کے نام سے ایک کتاب ہے جو گوجرانوالہ کے ایک وکیل پرویز احمد خان اوٹھی نے لکھی ہے۔ استاد محترم ڈاکٹر پروفیسر خواجہ محمد زکریا نے کتاب کے آخر میں بہت خوبصورت فلیپ لکھا ہے۔ خواجہ صاحب آج کل پنجاب یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کے لیے پروفیسر امیریٹس ہیں۔ یہ کتاب ”حسن قلم“ کے زیراہتمام وحید احمد زمان نے شائع کی ہے۔ خوبصورت کتاب ہے جسے پڑھنے والا ایک آسودگی محسوس کرے گا۔ کئی کتابوں کے لیے اگلے کالم میں ذکر کروں گا۔