تحریر : شاہ فیصل نعیم
اقتدار، سیاست، اندرونی معاملات، خارجہ پالیسی اور ترقیاتی منصوبوں میں کیا ان بوٹوں والوں کی مداخلت کم تھی ؟ جو اب عدلیہ کو بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا؟آپ کو نہیں لگتا کہ ان اقدامات سے پہلے سے موجود اداروں کی تحقیر ہو رہی ہے؟اُن کا وقار گرتا جا رہا ہے؟اس فوج کو اپنا آپ منوانے کی ہوس نے اس قدر مجبور کر دیا ہے کہ یہ فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئین میں ترمیم لے آئے ہیں؟یہ جو سرحدوں کے رکھوالے تھے یہ تختِ سلطنت کے متوالے کیسے بن گئے؟ ایسی کون سی وجہ ہے کہ فوج پاکستان کے اندرونی و بیرونی معاملات میں دخل اندازی کر رہی ہے؟یہی نہیں ایسے ہی بہت سے اور سوال ہیںجو آپ کو ہر اُس جگہ سننے کو ملیں گے جہاں چار لوگ بیٹھے ملکی صورت حال پر بات کر رہے ہوں۔جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں اُن میں برُی بات ایک ہی ہے وہ یہ کہ انہوں نے کبھی فوج کو ہدف ِ تنقید بنانے سے ہٹ کر سوچا ہی نہیں ۔ وہ صرف اس سوچ پر بحث میں حصہ لیتے ہیں کہ ہم نے ہر صورت فوج کوہدف تنقید بنانا ہے۔ وہ بچارے اپنی اس عادت سے اس قدر مجبور ہیں کہ اُن کا اس کے بغیر گزارا ہی نہیں۔
میں یہ مانتا ہوں کہ فوج کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں مگر میں ساتھ ہی اس پہلو پر بھی ضرور غور کرتا ہوں کہ اگر فوج ایسا کر رہی تو اُس کے پسِ پردہ کیا حقائق ہو سکتے ہیں؟میں یہاں کچھ وضاحتیں ضرور کروں گا۔ فوج کا اقتدار میں کیا کام ہے؟ چلو یہاں سے ہی شروع کرتے ہیں۔ “بدترین جمہوریت آمریت سے بہتر ہے”۔ یہ جس کسی نے بھی کہا ہے اُس نے یقینا پاکستانی جمہوریت کا حال نہیں دیکھا ہو گا۔ پاکستان کی اکثریت غریب ہے مگر حکمران امیر ہیں مگر کیا کریں ہم جمہوریت پرست لوگ ہیں جمہوریت دیوی کی پوجا کرنا ہمارا دھرم ہے اگر ہم غربت کی چکی میں پستے پستے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش نہیں کریں گے تو ہم لادین ٹھہریں گے۔ لوگ کہتے ہیں جمہوریت بہتر ہے
مگر اس ملک کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے وہ اُن ہی کے دور میں ہوئی جن کو آپ آمر کہتے ہو۔ ہر جمہوری حکمران نے اس ملک کو کتنا لوٹا ہے اُس کا حال کسی سے مخفی نہیں ۔ یہ جمہوری لوگ جن کے ووٹ سے مسندِ اقتدار پر متمکن ہوتے ہیں یہ بعد میں اُنہی کو خون کے آنسو رُلاتے ہیں۔ وہ دانشور جو فوج کے اقدامات کے خلاف لمبی لمبی تقریر یں جھاڑ رہے ہیں کیا ہی اچھا ہو اگر وہ ایسی ہی تقریریں جمہوری حکمرانوں کو سدھارنے پر کریں تاکہ فوج کواقتدار میں آنے کی ضرورت ہی نا پڑے۔ فوج جب بھی اقتدار میںآتی ہے ہر بار وجہ ایک ہی ہوتی ہے سیاست دانوں کی ذاتی مفادات کی خاطر ملکی مفادات کو قربان کر دینے کی روش۔جب تک سیاست دان یہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رکھیں گے اور اپنا طرزِ حکمرانی نہیں بدلیں گے فوج اقتدار میں آتی رہے گی۔
حکمران جب دشمن ملک میں بیٹھ کر اپنے ہی اداروں کے خلاف زہر افشانی کریں گے تو پھر فوج آگے آئے گی وہ خارجہ پالیسی میں بھی دخل دے گی۔ ملک کو جب بھی کسی نگہانی صورت ِحال کا سامنا ہوتا ہے تو پورے ملک کو صرف ایک ہی ادارہ نظر آتا ہے اور وہ ہے فوج ۔ جس کی سب سے بڑی مثال سیلاب ہے ۔ حکمرانوں کو معلوم ہے کہ ہر سال سیلاب آتا ہے گائوں کے گائوںزیرآب آ جاتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی حکمران اس کا کوئی دیر پا حل نہیں نکالتے ۔ ایسی صورتِ حال میں فوجی جوان اپنی جانوں پر کھیل کر اپنے لوگوں کی جان بچاتے ہیں اب بتائو کیا فوج کا یہ کام ہے کہ سیلاب سے لوگوں کو نکالے اور حکمرانوں کی ناکامیوں پر پردہ پوشی کرتی رہی؟ ان مشکلات کا مستقل حل تلاش کر نا حکومت کا کام ہے۔
حکومت سمیت سب سیاست دان جانتے ہیں کہ اس کا حل کیا ہے مگر وہ ذاتی مفادات اور اپنی سیاست کو چمکانے کی خاطر ہر سال ہزاروں غریبوں کر برباد کرتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ جب تک ڈیم نہیں بنے گا یہ لوگ مرتے رہیں گے۔ مگر یہ لوگ کسی صورت بھی ڈیم نہیں بنائیں گے وہ اس لیے کہ ان کا کونسا کوئی گھر اُجڑتا ہے ؟ ان کا کونسا کوئی گھر کا فرد مرتا ہے ؟ اور لوگ بھی بچارے بھولے ہیں جو امیر کے بچے کو غربت پہ داستان لکھنے کے لیے دیتے ہیں اس اُمید کے ساتھ کہ وہ ان کے دکھوں کی عکاسی کرے گا۔
جب سینکڑوں کے حساب سے قیدی جیل توڑ کر بھاگ جائیں گے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔جب خاطر ناک قیدی رشوت دے کر آزاد ہو جائیں گے اور ملکی تباہی کے منصوبے بنائیں گے ۔جب عدلیہ بکائو نظر آئے گی جب منصف مادی ہوس کی خاطر انصاف بیچ دیں گے تو ایسے میںکسی کو تو آگے بڑھنا ہوگا ۔ میں پھر کہوں گا یہ کام فوج کا نہیں ہے مگر کن لوگوں کی وجہ سے فوج یہ سب کر رہی ہے ہمیں اُن کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔ یہ سرحدوں کے والی لوٹ جائیں گے اپنی سرحدوں کی طرف مگر ایک شرط ہے خدارا آ پ ان کی سلطنت کو تو محفوظ رکھیں یہ نا ہو کہ وہ سرحدوں کی حفاظت پر لگیں رہیں اور اندر سے سلطنت کو دیمک چاٹ جائے۔
تحریر : شاہ فیصل نعیم