لندن: برطانوی سیکریٹری خارجہ بورس جانسن نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
اتوار کو بریگزٹ کے وزیر ڈیوڈ ڈیوس کی جانب سے استعفیٰ دینے کے بعد برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کے لیے یہ دوسرا بڑا دھچکا ہے۔
وزیر بریگزٹ ڈیوڈ ڈیوس نے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے سے متعلق وزیراعظم تھریسامے کے منصوبے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا عہدہ چھوڑا تھا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق تھریسامے کے ڈاؤننگ اسٹریٹ دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’پیر کی سہ پہر کو وزیر اعظم نے سیکریٹری خارجہ بورس جانسن کا استعفیٰ قبول کرلیا۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ’بورس جانسن کے متبادل کا اعلان جلد کیا جائے گا، بورس جانسن کی خدمات پر وزیراعظم ان کی شکرگزار ہیں۔‘
واضح رہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسامے کو پیر کی دوپہر پارلیمنٹ سے خطاب کرنا تھا، ان کے خطاب سے کچھ دیر قبل ہی بورس جانسن نے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔
برطانوی سیکریٹری خارجہ کے استعفے کے بعد عالمی مارکیٹ میں برطانوی پائونڈ کی قدر گرگئی حالانکہ جمعہ کو برطانوی کابینہ کی جانب سے بریگزٹ منصوبے پر اتفاق کے بعد پائونڈ کی قدر میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔
اپوزیشن لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن نے بورس جانسن کے استعفے کا ذمہ دار تھریسامے کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ دو سیکریٹریز کی جانب سے عہدے چھوڑنے کے باوجود ہم اپنے ملک کے مستقبل سے متعلق گومگوں کی کیفیت سے دوچار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مکمل واضح پالیسی اختیار کرنی چاہیے کہ برطانیہ کے اپنے پڑوسیوں اور تجارتی شراکت دار ممالک کے ساتھ کیسے تعلقات ہونے چاہئیں۔
واضح رہے کہ نجی محافل میں بورس جانسن نے، بریگزٹ کے بعد بھی یورپی یونین سے مضبوط معاشی تعلقات برقرار رکھنے کے منصوبے پر تھریسا مے کو کئی بار تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
کابینہ نے اس منصوبے کی جمعہ کو منظوری دے دی تھی، تاہم بورس جانسن نے عوامی سطح پر اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا تھا۔
بورس جانسن کو پیر کے روز لندن میں ایک کانفرنس میں شریک میزبان کے فرائض بھی انجام دینے تھے تاہم وہ اس کے لیے موجود نہ تھے۔
جرمنی کے جونیئر وزیر خارجہ مائیکل روتھ نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اب بھی اپنے میزبان کا انتظار کر رہے ہیں۔‘