تحریر : محمد ارشد قریشی
03 جون کو انتقال کرنے والے محمد علی امریکی ریاست کنٹک کے شہر لو ئسویل میں پیدا ہوئے اور اپنے والد کیسیئس مارسیلس کلے سینئر کے نام پر کیسیئس مارسیلس کلے جونیئر کہلائے۔کیسیئس کلے نے 12 سال کی عمر سے ہی ایک مقامی جمنازیم میں باکسنگ کرنی شروع کر دی۔ محمد علی کلے باکسروں کے عام انداز ہاتھ چہرے پر رکھ کر اس کا دفاع کرنا کے برخلاف ایک منفرد انداز کے حامل تھے۔ انہوں نے 29 اکتوبر 1960ء کو آبائی قصبے لوئسویل میں پہلا مقابلہ جیتا 1960ء سے 1963ء تک نوجوان کیسیئس نے 19 مقابلے جیتے اور ایک میں بھی شکست نہیں کھائی ان مقابلوں میں سے 15 میں اس نے مدمقابل کو ناک آؤٹ کیا۔
باکسنگ میں ان کا کیریئر ایک شوقیہ کھلاڑی کی حیثیت سے کامیاب رہا لیکن ان کو عظمت اس وقت حاصل ہوئی جب 1960ء میں روم اولمپِک میں انہوں نے سونے کا تمغا جیتا،لیکن تمغا جیتنے کے بعد جب محمد علی اپنے شہر واپس آئے تو وہ نسلی امتیاز کا شکار ہوگئے ایک ریستوران میں انہیں اس لئے نوکری نہ مل سکی کیونکہ وہ سیاہ فام تھے اور اس واقعے کے نتیجے میں انہوں نے اپنا سونے کا تمغا دریائے اوہائیو میں پھینک دیا تھا۔
ان واقعات کے باوجود ان کی کامیابیوں کا سلسلہ چلتا رہا اکھاڑے میں کیسیئس کلے کا کردار غیر معمولی رہا وہ اپنے مخالفین کو کھلا چیلینج دیتے رہے، باکسنگ کے مقابلے جیتتے رہے، اور عوام نے ان کو عقیدت کی نظروں سے دیکھنا شروع کردیا،فروری 1964ء میں کیسیئس کلے نے باکسنگ میں اس وقت کے عالمی چیمپیئن سونی لسٹن کو کھلا چیلنج کیا اور انہیں ایک مقابلے کے چھٹے راؤنڈ میں شکست دی اس کے بعد انہوں نے مسلسل سات مقابلوں میں اس وقت کے مایہ ناز باکسروں کو زیر کیا، یکے بعد دیگر کئی فتوحات کے بعد ان کا اسلام کی جانب رجحان پیدا ہوا اور انہوں نے نیشن آف اسلام میں شمولیت اختیار کرلی اور اپنا نام محمد علی رکھ لیا محمد علی کا کہنا تھا کہ کیسیئس کلے ایک غلامانہ نام تھا۔
جنگ ویت نام کے دوران محمد علی نے امریکی فوج میں شامل ہونے کے عہد نامے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں انہیں ان کے اعزاز سے محروم کردیا گیا اور 5 سال کی سزا سنائی گئی، بعد میں سپریم کورٹ نے عوامی احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں سزا سے مستثنٰی قرار دیا،بعد ازاں جب محمد علی پھر سے میدان میں اترے تو ان کی باکسنگ میں وہ کشش نہیں تھی اور جو فریزیئر نے انہیں شکست دیدی لیکن دوسال کے بعد انہوں نے بدلہ چکالیا۔
جو فریزیئر اور محمد علی کا یہ مقابلہ باکسنگ کی تاریخ کے عظیم ترین مقابلوں میں شمار ہوتا ہے جو صدی کی بہتری لڑائی کے نام سے مشہور ہے۔ اکتوبر 1974ء میں انہوں نے جارج فورمین کو شکست دیکر ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا وقار اور شہرت حاصل کرلی۔ اس وقت محمد علی کی عمر صرف 32 سال تھی اور وہ اس اعزاز کو پھر سے جیتنے والے دوسرے شخص تھے اس اعزاز کو جیتنے کے بعد 1975ء میں محمد علی نے نیشن آف اسلام چھوڑ کر باقاعدہ اسلام قبول کرلیا۔
اسی سال منیلا، فلپائن میں پھر سے محمد علی کا مقابلہ جو فریزیئر سے ہوا جن کا کہنا تھا کہ انہیں محمد علی سے نفرت ہونے لگی ہیلیکن پھر 14 راؤنڈ کے بعد محمد علی نے فتح حاصل کی اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ فروری 1978ء میں محمدعلی کو ایک زبردست دھچکا لگا جب وہ لیون اسپِنکس نامی اس شخص سے ہار گئے جو ان سے12 سال کم عمر تھا 08 ماہ بعد ایک مقابلے میں ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم ہوا اور کروڑوں لوگوں نے اس مقابلے کو دیکھا اس بار محمد علی نے اسپِنکس کو شکست دی اور تاریخ میں پہلی بار کسی کھلاڑی نے تیسری بار عالمی اعزاز جیتااس وقت ان کی عمر 36 سال تھی۔
40 سال کی عمر میں انہوں نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا 1980میں ان کی صحت کے بارے میں خدشات نے جنم لینا شروع کردیا اور ڈاکٹروں نے انہیں پارکنسنس سنڈروم (رعشہ) کا شکار پایا۔ جب انہوں نے 1996ء کے اٹلانٹا اولمپکس کی مشعل اٹھائی تو دنیا بھر کی توجہ ان کی صحت پر تھی اس وقت انہیں ایک سونے کا تمغا بھی دیا گیا جو اس تمغے کے بدلے میں تھا جو انہوں نے دل برداشتہ ہو کر دریائے اوہائیو میں پھینک دیا تھا۔آج بھی دنیا محمد علی کو ایک عظیم شخص کی حیثیت سے جانتی ہے۔ برطانیہ میں بی بی سی ٹیلیویژن دیکھنے والوں نے انہیں اس صدی کا سب سے عظیم کھلاڑی قرار دیا اور یہی اعزاز انہیں کے امریکی رسالے Sports Illustrated نے بھی دیا۔
محمد علی گذشتہ کئی سالوں سے رعشے کے مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود فلاحی کاموں کو نہیں چھوڑا اور بیماری کے دوران ہی اپنے آبائی قصبے لوئسویل میں 6 منزلہ محمد علی سینٹر قائم کیا ہے۔ایک مشہور شخصیت، ایک باغی، ایک کامل مسلمان، حقوق انسانی کے علمبردار اور ایک شاعر، جس نظر سے بھی دیکھا جائے محمد علی نے ہمیشہ کھیل، نسل پرستی اور قومیت کو شکست دی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب محمد علی کرہ ارض پر بلا شبہ سب سے زیادہ شہرت یافتہ شخص بن گئے۔
باکسنگ میں محمد علی کی زندگی 20 سال رہی جس کے دوران انہوں نے 56 مقابلے جیتے اور 37 ناک آؤٹ اسکور کیا لیکن دنیا ہمیشہ انہیں ایک عظیم شخص کے نام سے جانتی رہے گی۔ مسلمان اور سیاہ فام آج بھی محمد علی کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں۔محمد علی نے زندگی میں چار مرتبہ شادی کی جس سے ان کی 7 بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ بیٹیوں میں حنا، لیلی، مریم، رشیدہ، جمیلہ، میا، خالیہ جبکہ دو صاحبزادے اسعد اور محمد جونیئر ہیں
تحریر : محمد ارشد قریشی