تحریر: شاہ بانو میر
ایک لاکھ ستر ہزار نہیں نہیں اس کیلئے یہ نہیں ہو سکتا آخر تمہیں بتایا ہے کہ کیا ہے (لڑکا ہے لڑکی نہیں) اچھا چلو نہ تمہاری نہ میری بس ڈیڑھ لاکھ اچھا ٹھیک ہے کب آؤں؟ کل صبح آ جاؤ دوسرا فون ساٹھ ہزار سے کم ایک پیسہ نہیں خاتون کی سریلی آواز جیسے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔
نہیں نہیں کام دھندہ سب چوپٹ ہے آجکل کچھ کم کرو پچاس ہزار ؟ وہی مندر کی گھنٹیوں جیسی گنگناتی آواز ماؤتھ پیش میں پھر گونجی نہیں دوسری جانب سے قدرے تھکی ہوئی بے بسی سے لبریز جھنجھلائی آواز ابھری بس چالیس تک میں بندوبست کر سکتی ہوں چاہیے تو ٹھیک ورنہ کسی اور سے بات کر لو اچھا ناراض نہ ہو تمہارے ساتھ پرانا رابطہ ہے پرسوں ملاقات ہوگی۔
پیسوں کا بندوبست کر کے رکھنا تیسرا فون اس وقت اتنے سختی ہے ہر طرف کہ جان ہتھیلی پے رکھ کے صرف تمہارے لئے رکھا ہوا ہے اچھا نر مادہ کا ایک جوڑا ہے اڑہائی لاکھ پر بات ہو سکتی ہے ہمممم دوسری جانب سے گہری سوچ میں ڈوبی آواز آئی ڈیڑھ لاکھ دوں گا کل ہی آجاؤ مال لے کر اچھا کل ملاقات ہوگی۔
رات ہوجائے گی پہنچتے پہنچتے ٹھیک ہے کل فون کٹ جاتا ہے اب آپ سوچ رہے ہیں کہ یہ گفتگو کس کی خرید و فروخت پر مبنی ہے – یہ پرندوں کا لین دین ہو رہا ہے یا پھر اچھی نسل کے کتوں کا سین بدلتا ہے ایک بوڑہی عورت باریش داڑہی والے کے ساتھ ہاتھوں میں کمبل میں لپیٹا ہوا انسان کا جیتا جاگتا بچہ اٹھائے کمرے میں داخل ہوتی ہے۔
گھر میں موجود چہرے مہرے سے ایک بد قماش انسان نے اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ دیا جسے اس عورت نے لپک کر تھاما اور بےصبری سے نوٹ گننے لگی اور مطمئین ہونے کے بعد ساتھی بزرگ کو اشارہ سے اٹھنے کا کہ کر اٹھ گئی – دوسری جانب دو نو مولود بچے دئے جا رہے تھے اور بدلے میں خطیر رقم حاصل کرتے ہوئے یہ سفاک لوگ ہنستے کھیلتے بغیر کسی فکر کے بڑی سہولت سے روزمرہ کے کاموں۔
میں مشغول ہو گئے – منظر بدلتا ہے ہسپتال میں کمرے سے بچہ غائب ہو جاتا ہے اور ماتمی ماحول میں سسکیاں لیتی ہوئیں عورتیں بچے کی ماں اور دہائی دیتی ہوئی اس بچے کی دادی کسی مشکوک عورت کے وہاں نظر آنے کی دہائی دے رہی تھی –
منظر بدلتا ہے۔
اندرون شہر کا ایک محلہ اینٹوں سے تعمیر شدہ گھر وہاں کے رہائشیوں کی کمزور مالی حالت کے عکاس ہیں آدھی رات کا وقت ہے اور پولیس کا چوکس دستہ دروازہ کھڑکھڑا کے دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے دکھائے جانے والے منظر میں عقب سے آذان فجر کی مسحور کن آواز فضاؤں کو سحر زدہ کر دیتی ہے۔
تحریر: شاہ بانو میر