اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کی قیادت کی جانب سے ترک صدر طیب اردگان کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے بائیکاٹ کے فیصلے پر پی ٹی آئی کے کئی ارکان اسمبلی ناراض ہوگئے۔
جب ان سے رابطہ کیا گیا تو پی ٹی آئی کے کئی سینیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی نے نے شکوہ کیا کہ اس معاملے پر پارٹی قیادت نے انہیں اعتماد میں نہیں لیا۔
انہوں نے اس بات پر بھی برہمی کا اظہار کیا کہ اہم فیصلے میڈیا اسٹریٹجی کمیٹی کررہی ہے جسے سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے حوالے سے پارٹی کا موقف تیار کرنے کے لیے اور پاناما کے معاملے پر وزراء کے بیانات کا جواب دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے ہفتے کے روز اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اس کے ارکان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے جو 17 نومبر کو طلب کیا گیا ہے تاکہ پاکستان آنے والے ترک صدر یہاں خطاب کرسکیں۔
’پی ٹی آئی ترک صدر کے خطاب کا بائیکاٹ کرے گی‘
میڈیا اسٹریٹجی کمیٹی کے اجلاس کے بعد تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے اعلان کردیا تھا کہ پارٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس اجلاس میں شرکت نہیں کرسکتی جس کی سربراہی ایک ’متنازع وزیر اعظم ‘ کررہا ہو جسے کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی ترکی کو ایک ’مخلص دوست‘ اور برادر اسلامی ملک سمجھتی ہے اور پارٹی ترک صدر کے لیے احترام کا جذبہ رکھتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاناما گیٹ کیس میں ان کی جماعت کا موقف واضح ہے جو کہ فی الحال سپریم کورٹ میں ہے۔
تاہم پارٹی کے اس فیصلے پر کئی ارکان اسمبلی نے ناراضی کا بھی اظہار کیا، خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایک رکن اسمبلی نے کہا کہ ’مجھے صبح اخبار کے ذریعے معلوم ہوا کہ پارٹی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے‘۔
رکن اسمبلی نے شکوہ کیا کہ پارٹی قیادت میں سے کسی کو بھی اتنی زحمت نہیں ہوتی کہ وہ کسی اقدام پر ارکان اسمبلی کی رائے لے لے۔
پارٹی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پارٹی قیادت نے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کرنے سے قبل سینیٹ میں اپنے پارلیمانی لیڈر نعمان وزیر سے بھی مشورہ نہیں کیا۔
پاناما لیکس کیس: وزیراعظم کے بچوں نے جواب جمع کرادیئے
ایک اور رکن اسمبلی نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ ایک پارٹی جو جدید ٹیکنالوجی اور واٹس ایپ اور ٹوئیٹر کے ذریعے رابطے کے حوالے سے جانی جاتی ہے اس نے ان فیصلے کا اعلان کرنے سے قبل ان ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے ارکان سے رائے نہیں لی۔
انہوں نے کہا کہ انہیں قومی اسمبلی کے مسلسل بائیکاٹ کی منطق ہی نہیں سمجھ آتی جبکہ پارٹی کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ کہ وزیراعظم خود کو احتساب کے لیے پیش کریں، پورا ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پارٹی سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت شروع ہونے کے بعد اپنا دھرنا منسوخ کرسکتی ہے تو پھر پارلیمنٹ کا بائیکاٹ جاری رکھنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔
مزید برآں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پارٹی کے بنیادی ڈھانچے میں نام نہاد اسٹریٹجی کمیٹی کا کوئی کردار نہیں ہے۔
پی ٹی آئی ایڈوائزری کمیٹی کے سابق رکن عبدالقیوم کنڈی نے بیان جاری کیا کہ ، پارٹی کے رکن کی حیثیت سے وہ ’غیر آئینی اور غیر قانونی‘ کمیٹی کی جانب سے کیے جانے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجکلاس کے بائیکاٹ کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ترک صدر کے دورہ پاکستان کو اپنی اندرونی سیاست کی وجہ سے متنازع نہیں بنانا چاہیے، پی ٹی آئی پہلے ہی سی پیک کے حوالے سے متنازع بیانات دے کر بہت حد تک چینی دوستوں کی خیر خواہی سے محروم ہوچکی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ترک صدر کے خطاب کے بائیکاٹ سے غلط پیغام جائے گا ، میں چیئرمین عمران خان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور پارلیمانی عمل کا حصہ بنیں‘۔
شاہ محمود قریشی کا دفاع
اس حوالے سے جب شاہ محمود قریشی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ارکان اسمبلی اور سینیٹرز سے وقت کی کمی کے باعث رابطہ نہ کیا جاسکا۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی سینیئر رہنماؤں پر مشتمل ہے جس میں ان سمیت پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین، اسد عمر، شفقت محمود، عارف علوی، منزہ حسن اور شیریں مزاری شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کا دھرنا اور پاناما کیس : وزیر اعظم کے لیے دہرا خطرہ
جب ان سے کہا گیا کہ پارٹی کے میڈیا آفس کی جانب سے اجلاس کی جاری کی جانے والی تصویر میں نہ تو آپ اور نہ ہی جہانگیر ترین اور عارف علوی موجود تھے تو انہوں نے کہا کہ شائد میں تصویر لیے جانے کے بعد پہنچا ہوں گا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جہانگیر ترین ملتان اور عارف علوی کراچی میں تھے لیکن ان سے مشاورت کی گئی۔
تاہم انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد لیتے ہوئے ارکان اسمبلی اور سینیٹرز سے بھی رابطہ کیا جاسکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ پارلیمنٹ کا اجلاس جاری نہیں لہٰذا ہر رکن اسمبلی سے مشاورت کرنا ممکن نہیں ، ارکان اسمبلی اس بات کے پابند ہیں کہ وہ پارٹی قیادت کے فیصلوں کی تائید کریں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان کی قیادت میں پی ٹی آئی کا وفد ترک سفیر سے ملاقات کرے گا اور بائیکاٹ کے فیصلے کے محرکات سے آگاہ کرے گا۔