تحریر : شاہ بانو میر
بچوں میں کھیلتے ہوئے اپنے بیٹے کو دیکھ کر باپ کے ماتھے کی تیوری گہری ہو گئیں۔ یکلخت آگے بڑھا اور شور مچاتے اچھلتے کودتے بچوں میں سے اپنے بچے کو کسی چِیل کی طرح دبوچا ہاتھوں میں مچلتے ہوئے بچے کو کسی سنگدل انسان کی طرح بری طرح سے زمین پر پٹختے ہوئے بولا تیری ماں دن رات تیری تربیت میں جان گھلا رہی ہے کہ بڑے ہو کر تجھے “” بیت المقدس “” کو فتح کرنا ہے ۔اور تو یہاں اس کی ساری محنت پر پانی پھیر کر وقت کو کھیل تماشے میں ضائع کر رہا ہے ؟ بچہ زمین پے گرا ہوا باپ کے غصے سے لال چہرے کو دیکھ کر بڑی خاموشی سے اٹھا اور کپڑے جھاڑنے لگا باپ کی محبت جاگی تو اس نے قریب آکر اس کو دیکھتے ہوئے کہا میں نے تجھے اتنی بری طرح سے زمین پر پھینکا اور تو رویا نہیں؟۔
بچہ باپ کے سامنے کسی جری جوان کی طرح کھڑا ہو کر بولا جس نے بیت المقدس کو فتح کرنا ہو وہ روتا نہیں ہے؟ سبحان اللہ سوچئیے ایک چھوٹا بچہ اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے باپ پر ناراض نہیں ہو رہا بلکہ جواب میں اسے اپنے بہادرانہ عمل سے تسلی دے رہا ہے کہ جن بنیادوں پر اسکی پرورش کی جا رہی ہے کچھ وقت گزاری کھیل تماشے میں وہ غافل نہیں ہے اُس سے ایسے لمحہ لمحہ قیمتی ہونے کا طاقتور احساس کیا آج بھی کوئی سکھا رہا ہے؟ یہ تھے تاریخی لوگ آج ہم ہیں بودے لوگ محنت نہیں عمل نہیں سنجیدگی نہیں صرف پیسہ اور طاقت کے بل بوتے پر خود کو ہر شعبہ میں آگے دکھائی دینے کا شوق گروہ بندی میں تبدیل کر گیا۔
امت کو جو جتنا سرمایہ دار اکٹھا کر لے جو سیکڑوں لوگوں کو کھانا کھلا کر کچھ تصاویر لگوا لے وہی شعبہ سامنے دکھائی دیتا اور اگلے ہفتے دوسرا سرمایہ دار تلاش کیا جاتا ہے نئے پروگرام نئی تصاویر میں زندہ رہنے کی گواہی دینے کیلئے کب تک ایسے زندہ رہیں گے؟ پاکستان کو تو بہت کچھ کرنا تھا بنایا اس لئے گیا تھا کہ اسلامی ممالک کی طاقت ایک لفظ میں منتج ہو سکے اور آج ہم سب کاش سوچیں اپنے وقت کو اپنے پیسے کو محض کھیل تماشے جھوٹی دنیا میں نمود و نمائش کیلیے کس بری طرح سے ضائع کر رہے ہیں ؟ زندہ رہنے تک یہ پیسہ آپکو دکھائے گا مرتے ہی دوسرا بڑا آدمی سامنے آجائے گا اور جب اللہ کے سامنے نامہ اعمال کھلے گا۔
اللہ اکبر ہر بات میں جھوٹ ہر بات میں دھوکہ نمائش کو کام کا نام فرشتوں سے کچھ چھپا نہیں یہاں مختلف الفاظ کی جادو گری سے آپ مفہوم بدل سکتے ہیں وہاں زبان نے نہیں اعضاء نے گواہی دے کر طشت از بام کرنا ہے انہی مصنوعی وقت گزاریوں کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمان کی کوئی اہمیت نہیں انفرادی طور پے ہم نے خود کو ہر شعبے میں نمایاں کر لیا یہ منظر ہے ایک گراؤنڈ کا جہاں سیکٰڑوں کی تعداد میں مسلمان مردوں کو ہر عمر کے مسلمان اوندھے منہ لٹا دیا گیا ہے اور پھر ایک جانب سے دیو ہیکل ٹینک نمودار ہوتا ہے اور وہ ان کو روندتا ہوا پورے گراؤنڈ کا چکر لگاتا ہے آواز بالکل بند تھی ورنہ نجانے وہ دلخراش چیخیں کتنے دنوں تک میرے دل و دماغ کا احاطہ کئے رہتیں۔
بچیوں کی عصمت دری مساجد کے مائیک سے پورے شہر میں سنوایا جاتا ہے سب خاموش سب بے بس اور دور کہیں سے آواز ابھرتی ہے میرا قلم روتا ہے اور تڑپتا ہے ان لاشوں کے پرخچے اڑائے جانے پر ایسے میں فون پر کسی کے ساتھ بات کرتے ہوئے میں سنتی ہوں کوئی کہہ رہا ہے مفت مشورہ ہے کبھی کسی پروگرام کو مس نہ کرنا ورنہ کوئی اور جگہہ لے لے گی مگر آج تو یہ آرٹیکل پڑھا کیسے ٹینک روند رہے ہیں مسلمانوں کو دل بہت برا ہوا؟ خاتون کی قدرے اداس آواز ابھری چھوڑو شاہ بانو میر کو ان کا کام ہے ہر وقت کچھ نہ کچھ ایسا لکھنا ہے کہ ہمارے ذہن الجھیں اور پروگرام کا مزا کرکرا ہو چلیں۔
صاحب کو فون کریں آج ان کو خصوصی طور پر اسی لئے تو بلوایا کہ تنہا میٹنگ کر کے پر اپنا عہدہ پکا کر لیں متوقع امیدوار ہماری مٹھی میں ہے اتنا وقت لگا کر بھاگ دوڑ کر کے بڑی مشکل سے سب کو رام کیا ہے ٹی وی والے جان گئے کہ اس خاتون کو فوکس کرنا ہے کہ میڈیا کو بتا دیا ہے سارا میڈیا پہنچ جائے گا زبردست کوریج ہوگی اس بار ریسٹورنٹ کمال کا ہونا چاہئے تا کہ پتہ چلے اس بار ان۔۔۔۔۔ صاحب نے میٹنگ بلوائی ہے یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے۔
تحریر : شاہ بانو میر