تحریر : ابن نیاز
اللہ پاک بھی پڑھنے پڑھانے کو پسند فرماتے ہیں اور یہ بھی فرماتے ہیں اپنے پیارے محبوب مصطفی سے کہ آپ بس پڑھتے جائیں۔ اس کو یاد کرنے کی خاطر تیز ی سے زبان نہ ہلائیں۔ یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ آپ کے دل و دماغ میں اس طرح سے کلام کو بٹھا دیں گے کہ رہتی دنیا تک آپ کی پیروی کی جائے گی۔ پھر یہ کلام بار بار پڑھا جائے گا۔ اللہ پاک نے جو پہلا لفظ نازل کیا “اقراء” پڑھ۔ بظاہر تو یہ ہمارے نبی پاک کو حکم ہے کہ اسکے بعد جو کچھ بھی آپ پر اتارا جائے گا اس کو پڑھیں۔ لیکن اس ایک لفظ “اقراء” میں ایک سمندر پنہاں ہے۔ یہ صرف پڑھ کے معنوں میں ہی نہیں آتا بلکہ پڑھنے کے بعد مزید پڑھا ہی تو نہیں جاتا۔ جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس کو سمجھا بھی جاتا ہے۔ جب سمجھا جاتا ہے تو پھر اس پر غور کیا جاتا ہے کہ اس کا ہماری زندگی کے کسی بھی حصے میں کہیں عمل دخل تو نہیں۔کہیں زندگی گزارنے کے کسی اصول کا حصہ تو نہیں۔کہیں ہمارے آنے والے کل سے متعلق تو نہیں۔ کہیں ہمارے ماضی سے اسکا کوئی رابطہ تو نہیں رہا۔ کہیں ہمارے متعلقین کے بارے میں تو ہمیں اشارہ نہیں دیا جارہا ۔
کہیں یہ پڑھی گئی چیز زندگی کے کسی بھی مرحلے میں شامل تو نہیں ہونے والی۔ کہیں ہمارے ملنے جلنے والے افراد میں سے کسی کی زندگی کا کوئی معمولی سا حصہ تو نہیں جو ہمارے سامنے بنا اسکا نام پتہ بتائے آشکارا کیا جا رہا ہے پڑھنے کا حکم بظاہر تو اللہ پاک نے اس وقت کلام پاک کے لیے دیا ۔ لیکن ظاہر ہے اسی کلام پاک میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ جو ہم نے نازل کیا ہے ، ہے کوئی اس کو سمجھنے والا، اس پر غور و فکر کرنے والا۔ تو قارئین، جب اس کلامِ پاک پر غور کیا جاتا ہے تو مزید معانی نکلتے ہیں۔ ان معانی کو ہم اپنے الفاظ میں سموتے ہوئے ان کے موتی بنتے ہیں، اور ان موتیوں کو ہم صفحۂ قرطاس پر بکھیرتے ہیں۔ اور جب یہ قرطاسِ ابیض سے قرطاسِ سیاہ ہو کر ہمارے سامنے آتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ واقعی یہ کتاب پڑھنے کے لائق تھی۔پڑھنا بہت آسان ہے۔ جس شخص نے قرآن پاک پڑھنا سیکھا، جس کے لیے ابتدا نورانی قاعدہ سے کرائی جاتی ہے۔ تو پڑھنے کے لیے یہ کم سے کم تعلیم ہے۔
فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ پوری کی پوری کتاب پڑھ لے گا، البتہ جو مشکل الفاظ، خاص طور پر فارسی یا عربی تراکیب استعمال کی گئی ہوں گی، ان کے معنی اس کو شاید سمجھ نہ آئیں۔ لیکن اگر قاری تھوڑی سی ذہانت کا بھی حامل ہے تو اس لفظ کے سیاق و سباق سے وہ اس مشکل لفظ کے معنی بھی اخذ کر سکتا ہے یا کم از کم اس کا مفہوم سمجھ سکتا ہے۔
علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا ہے۔۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا کام تجھ سے دنیا کی امامت کا
یہاں بھی ذکر پڑھنے کا ہے۔ لیکن اب یہ کونسا پڑھنا ہے، تو یہ وہ سبق ہے جو حضرت ابوبکر صدیق سے شروع ہوتا ہے، حضرت عمر سے ہوتا ہوا حضرت علی تک پہنچتا ہے۔ جب ان ساری خصوصیات کا سبق کوئی پڑھ لیتا ہے، پھر ا ن کو ازبر کر لیتا ہے، پھر اپنی زندگی پر لاگو کر لیتا ہے تو پھر اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔۔۔ کہ عشق اس کے سر پر یوں سوار ہو جاتا ہے کہ وہ بس اپنے آپ میں مگن ہو کر اللہ کے دین کی خاطر اپنی جان ، مال ، دھن دولت قربان کر دیتا ہے۔بنیادی بات پڑھنے کی ہے۔ جو جس طرح کا سبق پڑھتا ہے اور اس کو اپنی زندگی میں شامل کرتا ہے، اسی طرح اس کی زندگی سنورتی ہے یا بگڑتی ہے۔
اسی طرح کی صورت حال تعلیم کے معاملے میں بھی پیش آتی ہے۔ اساتذہ کرام جب بچوں کوپڑھاتے ہیں، سکھاتے ہیں، جس طرح سکھاتے ہیں،
بچہ بھی اسی طرح پڑھتا ہے، سیکھتا ہے۔اور سیکھتے سیکھتے وہ بڑا ہو جاتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ اگر اس تعلیم کے ساتھ اس کو گھر کا ماحول بھی اچھا ملے، یار دوست اچھے ملیں تو وہ ایک کامیاب انسان بنتا ہے۔یہ کامیابی دنیوی بھی ہوتی ہے اور دنیاوی بھی۔ قائدِ اعظم کا فرمان، کام ، کام اور بس کام بھی تب ہی کام آتا ہے، جب شاگرد کی پڑھائی ٹھیک ہوتی ہے۔ کتابی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کی روحانی تربیت کی جاتی ہے، وہ بھی گویا پڑھائی کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ پھر اس کی جسمانی تربیت کی جاتی ہے، گویا جسم کو روح کے تابع کرنے کے گر پڑھائے جاتے ہیں۔ ایک ہوتا ہے بتانا، ایک ہوتا ہے پڑھانا۔ دونوں میں بظاہر معمولی سا فرق نظر آتا ہے۔ لیکن بتانے میں گویا اس کو اطلاع دی جاتی ہے، آگے اس کی مرضی کہ وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دے۔ جب کہ پڑھانے میں جب تک وہ پڑھائی ہوئی چیز کو لاگو نہیں کر لیتا، اس کو رٹ نہیں لیتا، اس کو استاد کو باقاعدہ سیکھ کر نہیں دکھاتا، تب تک استاد اس کو اسی سبق پر لٹکا کر رکھتا ہے۔
نصابی پڑھائی کے ساتھ ساتھ غیر نصابی پڑھائی بھی ہوتی ہے۔ اپنی سکول، کالج، یونیورسٹی کی کتابوں کے علاوہ بھی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، پڑھی جاتی ہیں۔ کچھ میں اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے، کچھ قاری خود ہی پڑھ کر سمجھ لیتا ہے۔ مسلہ صرف وہاں پیش آتا ہے جب اس کو ایک ہی عنوان پر دو یا زیادہ مختلف کتابیںپڑھنے کو ملتی ہیں اور ان میں لکھی گئی تحریریں آپس میں مطابقت نہیں رکھتیں۔ تو ایسے میں اس طالب علم کو جو سیکھنے کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے، اس کا دل و دماغ میں انتشار پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔کہ اب وہ کس کو درست سمجھے اور کس کو غلط۔ کیونکہ اگر وہ طالب علم ہے اور اسکو کوئی اسائنمنٹ ملی ہوئی ہے تو ظاہر ہے اس نے اس وقت تو دونو ں کا حوالہ دے دینا ہے لیکن نقطہ نظر یا نتیجہ بھی ضرور لکھنا ہوتا ہے۔ تو ایسے میں اس طالب کا کیا حال ہوتا ہے گا جب وہ تین میں رہتا ہوگا نہ تیرہ میں۔ چلیں یہ تو ایک بات ہو گئی۔ بات ہو رہی تھی پڑھائی کی۔ آج کل جو صورتحال ہے وہ اتنی گھمبیر ہے کہ مجلد کتاب سے پڑھنے کی طرف ملا جلا رجحان ہے۔کیونکہ کتابوںکی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔
جب کہ کتاب شائع ہونے کے مرحلے سے گزر کر اس دکان تک پہنچتی ہے جہاں سے قاری نے خریدنی ہوتی ہے تو ایک تین سو صفحات کی کتاب پر جس کی ایک ہزارجلدیں شائع کی گئی ہوں، زیادہ سے زیادہ خرچہ ایک سو روپے آتا ہے۔ جس میں کاغذ کی قیمت ، کمپوزنگ ، پرنٹنگ، جلد بندی، کرایہ وغیرہ شامل ہیں۔اب ہوتا کیا ہے ڈسٹری بیوٹر کہتا ہے کہ اس کو بھی کم از کم فی کتاب پچاس روپیہ ضروری ہے۔ دکاندار کہتا ہے کہ وہ بھی پچاس روپے تو رکھے گا۔ اور مصنف کا تو ویسے بھی حق بنتا ہے کہ ساری محنت اسکی ہے۔ اسی نے ہی قارئین تک اپنے الفاظ پہنچانے کے لیے تو دن رات ایک کیے ہیں۔تو فی کتاب پچاس روپے وہ بھی رکھتا ہے۔مصنف کو یہ رقم کچھ پبلشر اس طرح ادا کرتے ہیں اور کچھ یک مشت ادائیگی کر کے جملہ حقوق اپنے پاس رکھ لیتے ہیں کہ اس کے بعد اس کے جتنے بھی ایڈیشن پبلش ہوں، وہ آمدنی پبلشر کی ہو گی۔
اب مذکورہ بالا اخراجات ڈال کر اڑھائی سو روپے بن جاتی ہیں۔ لیکن ہوتا کیا ہے کہ وہ کتاب کم از کم پانچ سو روپے کی ہوتی ہے۔ جس میں سے چند دکاندار دس سے پچیس فیصد ڈسکائونٹ کر کے کتاب فروخت کرتے ہیں۔پھر بھی تین سو پچھتر سے چارسو کی کتاب خریدنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ تو میں نے ان مصنفین کی بات کی ہے جو ابھی زیادہ مشہور نہیں ہیں۔ ورنہ تارڑ صاحب کی کتاب خریدنا جوئے شیئر لانے کے برابر ہے۔ یا پھر وہ کتاب جو کسی سال میں بیسٹ سیلر بن چکی ہو، اور اتفاق سے وہ قسط وار کسی ڈائجسٹ میں شائع بھی ہو چکی ہو۔ ان اقساط سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اگر وہ کتاب کتابی صورت میں سامنے آئی تو ریکارڈ توڑ سکتی ہے۔تو اس کتاب کی قیمت بھی صفحات کی نسبت دوگنی ہوتی ہے۔ پبلشر سے پوچھا جاتا ہے تو ان سارے قصوں کے ساتھ وہ یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ جناب آپ نے حکومتِ وقت کے ٹیکس تو شمار کیے ہی نہیں۔ ہم نے بھی ٹیکس دینا ہوتا ہے، ڈسٹری بیوٹر نے بھی اور دکاندار نے بھی۔ تو کم از کم ایک سو روپیہ ان سب کی طرف سے ٹیکسوں کی مد میں بھی ڈال دیں۔
اب کوئی بتائے کہ ہم پڑھیں کیا اور سیکھیں کیا۔ پاکستان میں کاغذ بن نہیں سکتا کہ یہاں کارخانوں کو چلانے کے لیے بجلی چاہیے، گیس چاہیے، جو کہ کمیاب نہیں بلکہ نایاب ہے۔ اس لیے کاغذ باہر سے امپورٹ کیا جاتا ہے اور امپورٹ پر ڈیوٹی ہے، بہت سے ٹیکسز ہیں۔ اربابِ اختیار سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ کاغذ پر ڈیوٹی کی شرح کم کر دیں بلکہ نہ ہو تو بہتر ہے کہ بعد میں بھی توپبلشر سے لے کر دکاندار تک ٹیکسز تو دیتے ہی ہیں۔ یعنی ایک کتاب پر جس کی کل قیمت ایک سو روپے ہوتی ہے اس کو قاری کے ہاتھ تک پہنچے تک اس پر سو فیصد ٹیکس بنتا ہے۔ یہی مختصر سی گزارش ہے کہ قیمتیں کتابوں کی کم ہوں گی تو قارئین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا اور کاپی رائیٹ کا مسلہ بھی کافی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔
تحریر : ابن نیاز