تحریر : رائو اسامہ منور
١١٠٠ء کا دور تھا۔ مسلمانوں کے ایک بہادر جرنیل سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج صلیب کے پیروکاروں کو روندتی ہوئی بیت المقدس کے مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کی خاطراسکی طرف بڑھی چلی جارہی تھیں۔ صلیب کے پیروکاروں کیلئے مجاہدین اسلام کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگیا۔ انہوں نے دیکھاکہ سلطان اپنی بات کا پکا ہے اور یہ بیت المقدس فتح کیے بغیر ٹلنے والا نہیں۔صلیبیوں نے غوروخوض کے بعد بیچ کا راستہ نکالا اور مسلمانوں میں سے عیاش طبع لوگوں کو چُن لیا۔صلیبِ اعظم کے محافظ نے ہزاروں کی تعداد میں لڑکیوں کی برین واشنگ کی اور ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی کہ صلیب کی خاطر اپنی عزت اور عصمت کی قربانی دینا انتہائی افضل عمل ہے۔ اس سب کے بعد ان تربیت یافتہ لڑکیوں کی بڑی تعداد کوباقاعدہ پلاننگ کے ذریعے مسلمانوں میں نا اتفاقی ، لڑائی جھگڑے اور جاسوسی کے مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔
یہ حربہ انتہائی کامیاب رہا اوراس کے بعد مسلمانوں کے بڑے بڑے امراء ، سالار، کماندار اور قلعہ دار عیاشی میں پڑ کراپنے مقصد سے ہٹ گئے ۔ عورت اور شراب نے انہیں غیرت سے اتنا عاری کردیا کہ انہیں سلطان ایوبی اپنا دشمن جبکہ صلیبی اپنے دوست لگنے لگ گئے۔انہی وجوہات کی بنا پر مسلمانوں میں خانہ جنگیاں ہوئیں اور ہزاروں مسلمان کہ جنہیں دشمن کے خلاف لڑنا تھا وہ آپس میں ہی لڑ لڑ کر ختم ہوگئے۔اسی لئے سلطان ایوبی کہا کرتا تھا: ”تم جس قوم کو تباہ کرنا چاہو اس قوم کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلا دو۔”
آج ہمارے معاشرے میں بھی بے حیائی کا عنصر شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے۔دشمنانِ اسلام یہ بھانپ چکے ہیں کہ مسلمان قوم کی رگوں میں عیاشی کا زہر منتقل کرکے ان کا وجود مٹایا جاسکتا ہے۔مجموعی طور پر ہمارے معاشرے میں کچھ ایسی چیزیں شامل ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے نوجوان نسل مسلسل بگاڑ کا شکار ہورہی ہے۔انسانی فطرت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے رب تعالیٰ نے جو احسن قانون دیا ہے اس کے اطلاق کو آج مشکل بنادیا گیا ہے۔ میڈیا کی یلغار کے سبب آج نوجوان کم عمری میں ہی بہت سی ایسی چیزوں سے واقف ہوجاتا ہے کہ جو اس کے لئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔پھر فطرت کے تقاضوں کو پورا کرنے میں معاشرہ اتنے روڑے اٹکاتا ہے کہ اس کے لئے اپنے آپ پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے اور نتیجہ گناہ کی صورت میں نکلتا ہے۔ انسان کی اس فطری ضرورت اور ہمارے معاشرے کی کوتاہی کو اسلام دشمن عناصر نے بھرپور طریقہ سے استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں کیلئے گناہ کے کئی دوسرے راستے آسان بنا کر پیش کئے ہیں۔
”ویلنٹائن ڈے”بھی اسی یلغار کا ایک جزو ہے جسے مغرب نے بخوبی ہمارے ہاں لانچ کیا ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بغیر کسی جائز رشتے کے، والدین سے جھوٹ بول کر، مذہب کے احکامات کا تیاپانچہ کرکے،روایات کی دھجیاں بکھیر کر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے آپ کو دھوکہ دے کر ”اظہارِمحبت ”کرتے ہیں۔مجھے نہیں سمجھ آتی یہ کیسا اظہارِ محبت ہے جس میں رب سمیت کوئی بھی راضی نہیں۔یاد رکھئے!جو قوم اپنی روایات کو چھوڑ کر غیروں کی پیروی کرنا شروع کردیتی ہے اس کو دنیا تذلیل کی نگاہوں سے دیکھتی ہے اور اس کے لئے” عزت ”ایک غیرموذوں سا لفظ بن کر رہ جاتا ہے۔
مغربی تہذیب ۔۔۔ جس کی ہم ایک دوسرے سے بڑھ کر تقلید کرتے ہیں وہ ان روایات کو اپنی تہذیب کا حصہ بنانے کے بعد اب پشیماں ہے۔مغرب میں خاندان اور خاندان کی باہمی محبت کا تصور آہستہ آہستہ مٹتا جا رہا ہے۔طلاق اور خاندانوں کے ٹوٹنے کا سلسلہ بہت تیزی سے جاری ہے۔اور اس کی وجہ دراصل وہی چیزیں ہیں جن سے اسلام نے ہمیں اول روز سے ہی منع کردیا تھا۔اگر ہم نے دشمن کے عزائم کو نا سمجھا اور اسی طرح سے ذہنی غلامی میں مبتلا ہوکر اندھی تقلید کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہمیں بھی مغرب کی طرح انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تحریر : رائو اسامہ منور