تحریر: عفت
سکینہ نے دانتوں سے دھاگا توڑتے ہوئے لمبی سانس لی اور قمیص لپیٹ کر شاپر میں ڈالی اور سلائی مشین سے اٹھ گئی۔دکھتی ہوئی کمر کو ہاتھ سے دباتے ہوئے صحن میں آئی ۔بیلا ٹاٹ پہ بیٹھی بچوں کو ٹیوشن پڑھا رہی تھی ۔بیری کے درخت کے نیچے بچھی چارپائی پر بابر لیٹا تھا غالبا وہ سو گیا تھا اس کے منہ سے نکلتی رالوں پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں ۔سکینہ نے چادر سے اس کا منہ صاف کیا اور اس پہ کپڑا دے دیا ۔بیلا تو ذرا فارغ ہو کر روٹیاں ڈال لینا میں ذرا میر صاب کے گھر ان کو کپڑے دے آئوں کچھ روپے بھی مل جائیں گے۔بابر کو بھی اندر لے جانا اور کواڑ ڈھو لے ۔سکینہ نے چادر کی بکل ماری اور باہر چلدی۔بیلا نے بچوں کو چھٹی دی اور اٹھ کر بابر کو جگانے لگی۔بابر جاگا اور مندی مندی آنکھوں سے بیلا کو دیکھا تا اے؟ اٹھ اندر چل۔بیلا نے بابرکو سہارا دیا اور اندر لے گئی ۔
اس نے جلدی سے چولھا جلا کر توے پر روٹی ڈالی اور ساتھ ساتھ دیگر کام بھی نبٹاتی چلی گئی۔ روٹیاں بنا کر اس نے کٹوری میں سالن ڈالا اور روٹی ٹرے میںرکھ کر باہر کے آگے تپائی کھینچ کر اس پر رکھی ۔چل اُٹھ روٹی کھا لے۔ اس نے باہر کو جھنجھوڑ اجو پھر سے سو گیا تھا۔ اس نے منہ سے بے معنی آوازیں نکالیں اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔بیلا نے نوالہ بنا کر اس کے مُنہ میں ڈالے وہ اپنی گول گول آنکھیں گھما کر نوالے چبانے لگا ساتھ ساتھ پتنہ نہیں کیا کیا بول رہا تھا۔ اس کے الفاظ سمجھ سے باہر تھے۔ کھانا کھلا کر بیلا نے اس کو پانی پلایا اور اس کا مُنہ صاف کر کے برتن سمیٹے اور کچن میں رکھ آئی۔ اتنے میں دروازہ بجا۔ بیلا نے دروازہ کھولا تو سکینہ تھی اس کے چہرے پر رونق تھی۔ بیلا میر صاحب کی بیوی نے پیسے دے دیئے ہیں۔ لے یہ تھوڑا سا فروٹ بھی لائی ہوں اور یہ سبزی بھی پکڑ اس وقت ذرا سستی مل جاتی ہے سکینہ نے لفافے بیلا کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے کہا اور ایک شاپر ابھی بھی اس کے ہاتھوں میں تھا ۔ اماں یہ کیا ہے بیلا نے پوچھا۔ ہاں یہ میر صاحب کی بیوی نے یہ کچھ پرانے کپڑے دئیے ہیں ان کی بیٹی کے ہیںاور تیرے ناپ کے ہیں۔ بیلا کا چہرا اتر گیا ۔ماں ہم ذلت کب تک برداشت کریں گے؟کیا سدا اترن ہی مقدر بنی رہے گی؟ سکینہ نے کوئی جواب نہیں دیا ۔شاید بے بسی اور غریبی کی زبان نہیں ہوتی ۔
کمرے میں نیم تاریکی تھی ۔بلب کی روشنی برائے نام تھی ایک چارپائی پہ سکینہ اور بیلا لیٹی ہوئی تھیں جبکہ دوسری پہ بابر لیٹا تھا وہ اپنے کمزور ہاتھوں کو گھما گھما کرفضا میںنجانے کیا تلاش کر رہا تھا ساتھ ساتھ منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکال رہا تھا ،بابرذہنی معذور بچہ تھا عمر تو اس کی پندرہ سال تھی مگر ذہنی عمر دو سال کے بچے کے برابر تھی ۔سکینہ سو چکی تھی جب کہ بیلا کی آنکھوں سے نیند غائب تھی وہ کروٹیں بدل رہی تھی ۔پنتیس سال کی عمر میں پچاس سال کی سوچیں اس پہ حاوی تھیں ۔اسے نجانے کب نیند آگئی ۔بیلا کا باپ سکینہ کا ساتھ جوانی میں ہی چھوڑ گیا جب بابر ایک سال کا تھا ۔بیلا نے ایف اے پاس کیا پھر ایک پرائیویٹ سکول میں جاب کرنے لگی ۔معمولی سی تنخواہ تھی کچھ ٹیوشن کے بچے آجاتے مل ملا کہ تین ہزار روپے بن جاتے کچھ سکینہ سلائی کر تی۔سو زندگی کی گاڑی کو دھکا لگ رہا تھا ۔جب گھر میں غریبی جیسی آفت ہو تو بیری ہر پتھر نہیں آتے سو وقت کے ساتھ پتھر تو نہیں البتہ سر میں چاندی کے تار ضرور آ رہے تھے ۔
بھولی سکینہ ابھی بھی پر امید تھی کہ اس کی شہزادی کے لیے کوئی نہ کوئی شہزادہ گھوڑی پہ بیٹھ کر آنے والا ہو گا ۔سو بڑی لگن سے وہ دھیرے دھیرے سوٹ بنا کر ٹین کے ٹرنک میں رکھتی جاتی اور پھر اس کو تالا لگا کر چابی کو مال ِ متاع کی طرح سنبھال لیتی۔بیلا کو اس لمحہ اپنی ماں کی سادگی پہ غصہ اور پیار بیک وقت آتا جب وہ برسوں پرانے سلک اور بوروکیٹ کے سوٹ جو کب سے آوٹ آف فیشن ہو چکے تھے دیکھتی۔اب تو اس کی آنکھوں سے وہ خواب ہی روٹھ گئے تھے جن میں کسی کا انتظار ہوتا ہے وہ تو بس ایک مشینی انداز میں زندگی کو گذار رہی تھی یا زندگی اسے گذار رہی تھی کچھ بھی تھا وہ اپنی ماں کی امیدوں کو اس حقیقت سے آگاہ کر کے کہ اب یہاں کوئی نہیں آئے گا ،توڑنا نہیں چاہتی تھی ۔چند دن سے بابر پر عجیب دورے پڑ رہے تھے بیٹھے بیٹھے ہاتھ پائوں مڑ جاتے اور منہ سے جھاگ نکلتی سرکاری اسپتال کے ڈاکٹر نے سکینہ کو بتایا بابر کو مرگی ہے وہ دل تھام کے رہ گئی کیوں کہ یہی روگ تو اکرم کو بھی تھا ۔
سرکاری دوائی سے آرام آنے کے بجائے بابر کی حالت اور خراب ہوتی جا رہی تھی دوروں کی شدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ کمزوری بڑھ رہی تھی ۔اس سے بڑھ کے علاج کی نہ توفیق تھی نہ ہمت ،پھر ایک دن بابر کو ایسا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا ۔سکینہ کو گویا چپ لگ گئی جیسا بھی تھا تھا تو اس کا جگر گوشہ مگر موت کا ہرکارہ یہ کہاں دیکھتا ہے موت تو اچھے اچھوں کو اچک لے جاتی۔اب سکینہ کے دماغ پہ بیلا کی شادی کی دھن سوار تھی ۔کئی عورتوں کو اس نے رشتے کے لیے کہہ رکھا تھا مگر جب بھی کوئی آتا عمر اور جہیز آڑے آجاتا اور بات آگے بڑھنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ۔
آج بھی بیلا کے اسکول جانے کے بعد وہ میر صاحب کی بیوی کے آگے اپنا دکھڑا رو رہی تھی کی میر صاحب کی بڑی بہو آگئی اور بولی خالہ سکینہ تم کنوارہ لڑکا ڈھونڈنے کے بجائے کوئی رنڈوا یا دوسری شادی والا ڈھونڈو ۔بیلا کی عمر نکلتی جا رہی کچھ عرصہ بیتا تو رشتہ ملنا ناممکن ہو جائے گا ۔سکینہ کہتی بھی تو کیا کہتی خاموشی سے گھر آگئی ۔بیلا جب واپس آئی تو ماں کی خاموشی محسوس کی تو پوچھنے لگی ۔سکینہ نے پہلے تو ٹال دیا مگر دل بھرا ہوا تھا سب کہہ سنایا ۔بیلا کے ہونٹوں پہ زخمی سی مسکراہٹ در آئی اور ماں کو لپٹ کے بولی ۔اماں تم کیوں دل میلا کرتی ہو مجھے کہیں نہیں جانا تمھیں چھوڑ کے ۔یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے گرتے آنسو سکینہ کے بالوں میں کھو گئے۔ چھٹی کا دن تھا بیلا کپڑے دھو کے تار پر پھیلا رہی تھی کہ دروازہ بجا ۔کون ہے ؟اس نے پوچھا ۔میں ہوں فضل کریم کریانے والا باہر سے آواز آئی۔فضل کریم محلے کا دکان دار تھا ۔بیلا نے دروازہ کھولا آجائیں چاچا اماں نماز پڑھ رہیں بیٹھ جائیں ۔فضل کریم صحن میں چارپائی پہ بیٹھ گیا ۔
وہ ستر کے پیٹے میں تھا ۔سکینہ آئی تو سلام کے بعد فضل کریم نے پیسوں کا تقاضا کیا ۔بھیا یہ پانچ سو ہیں میں دینے آرہی تھی تم نے کیوں زحمت کی ۔سکینہ نے ملتجانہ لہجے میں کہا ۔نہ سکینہ بی تمھارا کھاتہ سات ہزار پہ پہنچا ہوا ہے ۔اور ادھار نہیں دوں گا پہلے اگلا حساب بے باک کرو ۔فضل کریم نے تلخ لہجے میں کہا ۔ایک ہفتے میں میری رقم چکا دو بس ۔یہ کہہ کر وہ یہ جا وہ جا ۔سکینہ وہیں ڈھے گئی ایک ہفتہ چھوڑ ایک ماہ میں بھی یہ ممکن نہ تھا ۔ماں کی یہ حالت دیکھ کر بیلا نے اسے تسلی دی اماں میں سکول سے کچھ ایڈوانس لے لوں گی تم پریشان مت ہو ،جبکہ وہ جانتی تھی ایسا ممکن نہیں ۔اگلے دن سکول واپسی پہ وہ فضل کریم کی دکان پہ گئی ۔
فضل کریم پہلے اسے دیکھ کے حیران ہوا پھر اس کی باچھیں کھل گئیں آو آو بیلا کیسی ہو مجھے بلا لیا ہوتا ،وہ میں آپ سے بات کرنے آئی تھی کہ آپ تھوڑا وقت اور دے دیں ہم آپکی ساری رقم چکا دیں گے بیلا اس کی نظروں سے گھبرا گئی۔ دیکھ بیلا میں جانتا ہوں تم لوگوں کے حالات مگر کیا کروں کاروبار بھی چلانا ہے نا فضل کریم نے دانتوں کی نمائش کی ہاں ایک حل ہے اگر منظور ہو تو تیرے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے ۔ورنہ میں اپنی رقم پہ سود لوں گا ۔کیا؟بیلا نے گھبرا کے پوچھا ۔
دیکھ بیلا میری دو بیویاں تھیں جن کا انتقال ہو چکا ہے ان سے دو لڑکیاں ہیں ان کی میں شادی کر چکا ہوں بیٹے کے لیے تیسری شادی کی اللہ نے دو بیٹے دیے دونوں شادی کے بعد الگ رہتے ہیں اب میری بیوی زینب بیمار رہتی ہے میرا خیال نہیں رکھ سکتی اسے ٹی بی ہے ۔اس لیے مجھے زندگی کا ساتھی چاہیے اگر تو مان جائے تو تیرا گھر بھی بس جائے گا اور میرا بھی تیری ماں کا قرض بھی میں معاف کر دوں گا ۔فیضلہ تجھ پہ ہے ۔بیلا فضل کریم کا منہ دیکھ کر رہ گئی ۔اور گھر کی طرف قدم بڑھا دیے سارا راستہ اس کے کانوں میں فضل کریم کی گفتگو گونجتی رہی۔رات بھر وہ کروٹیں بدلتی رہی ۔اگلے دن اس نے ہمیشہ کی طرح یہ اترن بھی پہننے کا فیصلہ کر لیا ۔
تحریر: عفت