اسلام آباد; چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہےکہ ڈیمز کے لیے جمع فنڈز کسی کو کھانے نہیں دیں گے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان نے ایک کیس کے دوران ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈز سے متعلق ریمارکس دیئے کہ ہم نے ڈیمز کے لیے فنڈز کی اپیل کر رکھی ہے، ڈیمز کی تعمیر کے لیے قوم کے بچے پیسے جمع کرکے دے رہے ہیں، ہم ڈیمز فنڈز میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور سپریم کورٹ کے ججز بھی فنڈز دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ڈیمز کے لیے جمع فنڈز کو کسی کو کھانے نہیں دیں گے، اس پر پہرا دیا جائے، یہ نہیں ہونے دیں گے کہ کمیشن کےلوگ ان فنڈز سے گاڑی اور گھر خرید لیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ ڈیمز سے متعلق ہر گھنٹے بعد اپ ڈیٹ کی جائے گی، ہر گھنٹے ویب سائٹ اپ ڈیٹ ہونے سے پتا چلتا رہے گا کہ کتنے پیسے جمع ہوئے، اسٹیٹ بینک کو بھی اپنی ویب سائٹ پر یہ معاملہ اٹھانے کا کہا ہے۔واضح رہے کہ چیف جسٹس پاکستان نے ڈیمز کی تعمیر کے لیے 10 لاکھ روپے عطیہ کیے ہیں جب کہ سپریم کورٹ نے ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈز کی غرض سے جو اکاؤنٹ بنایا ہے اس کا ٹاٹئل اور نمبر یہ ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کو فوری طور پر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا حکم دیتے ہوئے چیئرمین واپڈا کی سربراہی میں عملدرآمد کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ فاضل عدالتِ عظمیٰ نے اس سلسلہ میں واپڈا سمیت تمام متعلقہ حکام سے تین ہفتے کے اندر اندر رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔ گزشتہ روز دوران سماعت چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈیمز کی تعمیر کے حوالے سے عطیات کی وصولی کیلئے سپریم کورٹ میں کھولے گئے اکاﺅنٹ میں اپنی طرف سے دس لاکھ روپے جمع کرانے کا بھی اعلان کیا اور ریمارکس دیئے کہ اگر قومی اتفاق ہو تو کالاباغ ڈیم بھی تعمیر ہو سکتا ہے تاہم ہم قوم کو منتشر نہیں کرنا چاہتے۔ اس وقت ملک میں پانی کی قلت جو گھمبیر صورت اختیار کرچکی ہے اور آبی ماہرین کے مطابق آئندہ پانچ سال تک ملک کے بیشتر حصے پانی کے سنگین بحران سے دوچار ہو سکتے ہیں‘ ہمیں پانی ذخیرہ کرنے کی ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ملک کو درپیش اس سنگین مسئلہ کا ادراک کرکے ہی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے معاملہ کا ازخود نوٹس لیا اور بالخصوص ماہرین سے آراءطلب کیں۔ فاضل عدالت عظمیٰ کے روبرو سابق چیئرمین واپڈا انجینئر شمس الملک سمیت تمام آبی ماہرین اور عدالتی معاون کی حیثیت سے طلب کئے گئے پیپلزپارٹی کے سینیٹر چودھری اعتزاز احسن نے بھی کالاباغ ڈیم کی اہمیت کو اجاگر کیا تاہم عدالت عظمیٰ میں بھی کالاباغ ڈیم کے حوالے سے قومی اتفاق رائے کی صدائے بازگشت گونجنے لگی چنانچہ ،
فاضل چیف جسٹس نے اس ڈیم کے علاوہ دوسرے ڈیمز کی تعمیر کا بھی بیڑہ اٹھایا چنانچہ انکے عزم کی بنیاد پر اب ملک میں نئے ڈیمز کی تعمیر کا امکان روشن ہوگیا ہے۔ اگر بہترین قومی مفاد کو پیش نظر رکھا جائے تو کالاباغ ڈیم پر کسی قسم کی مفاہمت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس ڈیم کیلئے جتنا ہوم ورک ہوچکا ہے اسکی بنیاد پر اسکی تعمیر نسبتاً کم لاگت سے جلد مکمل ہو سکتی ہے جبکہ یہ ڈیم قومی ترقی کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔ آج پانی اور توانائی کے بحران کے تناظر میں ہمیں زیادہ سے زیادہ ڈیمز کی ضرورت ہے جس کیلئے ہمیں بھارتی سازشیں اور اسکی جاری آبی دہشت گردی کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اگر وہ سندھ طاس معاہدہ سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ہمارے حصے کے پانی پر بھی دھڑا دھڑ ڈیمز تعمیر کررہا ہے جس کے باعث ہمیں پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم کرنے کی اسکی سازش کامیاب ہوسکتی ہے تو ہمارے مفاد پرست سیاست دان اور دوسرے طبقات ملک اور قوم کی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر کیوں متفق نہیں ہو سکتے۔ اگر وہ قومی مفادات کے برعکس کالاباغ ڈیم کی مخالفت برقرار رکھتے ہیں تو وہ ملک دشمنی کے مرتکب ہوتے ہیں اس لئے قومی اتفاق رائے کے شوشے کو نظرانداز کرکے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے جس جذبے کے تحت ڈیمز کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا ہے‘ اسکی بنیاد پر توقع کی جا سکتی ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر بھی بالآخر ممکن ہو جائیگی۔