راولپنڈی (ویب ڈیسک)نجی اخبار نے لکھا ہے کہ ہائی کورٹ کےسابق جج نےکنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹنسزکورٹ(سی این ایس سی)عدالت کے’’گوگل پر مبنی‘‘اُس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہےجس میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما حنیف عباسی کوغیرقانونی طور پر 137کلوگرام ایفیڈرین رکھنےپرعمرقیدکی سزاسنائی گئی تھی۔نجی اخبار کے مطابق ہائی کورٹ
کےجج جسٹس(ر) صغیراحمدقادری کامانناہےکہ ملزم کوشک کافائدہ ملناچاہیےتھاکیونکہ گمان کی بنیادپرسزانہیں دی جاسکتی تھی۔ سی این ایس سی راولپنڈی کےجج محمد اکرم خان کے69صفحات پرمبنی فیصلےپرنظرثانی سےانکشاف ہوتا ہے کہ حنیف عباسی کےخلاف پورا مقدمہ عدالت کی جانب سےگوگل پرکی گئی تحقیق اور گمان پرمبنی ہے کہ ملزم کی ملکیت میں غیرقانونی کیمیکل تھا جس کی مدد سےمیتھم فیٹامائن نامی منشیات تیارکی جاسکتی ہے۔ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس(ر) صغیراحمد قادری نےدی نیوز سےبات کرتے ہوئےکہاکہ’’فیصلہ کمزور ہے کیونکہ کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹنسزایکٹ کی شق 9-cکےتحت ملزم کوجوسزادی گئی ہے وہ اس مقدمےکےساتھ مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ ملزم نے ایفیڈرین قانونی طورپر حاصل کی تھی اور انھیں ایکٹ کی شق16کے تحت ہی سزا مل سکتی تھی جو کوٹےکےغلط استعمال پربات کرتی ہے۔‘‘انہوں نےلاہور ہائی کورٹ کےنومبر2012کےایک پہلے کےفیصلے کاحوالہ دیاجس میں کہاگیاتھاکہ سیکشن 9-c جس میں سزائے موت رکھی گئی ہے وہ حنیف عباسی کے مقدمے پر لاگو نہیں ہوتی کیونکہ ملزم کیلئے2010 میں گولیاں تیارکرنےکیلئےقانونی طورپر500کلوگرام ایفیڈرین کاکوٹہ مختص کیاگیاتھا۔ جسٹس صغیرقادری اور جسٹس باقرنجفی پر مشتمل ہائی کورٹ بنچ نے حنیف عباسی کو 2012میں ضمانت دیتے ہوئے اے این ایف کو بتایاتھاکہ اگر حنیف عباسی کے خلاف الزامات ثابت ہوجاتے ہیں تو جرم پرسیکشن16 لاگوہوگی جو قابلِ ضمانت جرم ہے اور جرم کے خلاف زیادہ سے زیادہ
سزاایک سال قید بنتی ہے۔آرڈرمیں کہاگیاتھا،’’ایف آئی آراور بعد میں ہونےوالےتحقیقات میں حنیف عباسی کےخلاف واحد الزام یہ ہے کہ انھوں نےایفیڈرین کاغلط استعمال کیایا اس ایفیڈرین کو ادویات (ڈی-ایسم 30ایم جی ٹیبلٹس)کی تیاری میں استعمال نہیں کیا۔‘‘ ہائی کورٹ کےسابق جج نےسی این ایس سی کےآرڈرمیں گمان لفظ کےاستمال پر بھی یہ کہتے ہوئے شدید تنقید کی کہ الزام ثابت کرنا استغاثہ کی ذمہ داری تھی۔ جسٹس (ر) صغیرنےکہاکہ عدالت نےایفیڈرین کو کنٹرولڈ اور منشیاتی چیز ثابت کرنے کیلئے گوگل کاسہارالیا پاکستانی قانون میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جسٹس(ر) صغیرنےکہاکہ ’’عدالتی قانون میں گوگل کوئی موثر حوالہ نہیں ہے۔‘‘ تاہم انھوں نے کہاکہ لاہور ہائی کورٹ کےبنچ جس میں وہ بھی شامل تھے، اس کےفیصلے کےمطابق ایفیڈریین ضرور کنٹرولڈ چیزوں میں آتی ہے۔ انھوں نے کہاکہ،’’میں نے لاہور ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ لکھاتھاجس میں پاکستان کی جانب سے دستخط شدہ عالمی معاہدوں کےمطابق ایفیڈرین کوایک کنٹرولڈچیز کہاگیاتھا۔‘‘ جب اے این ایف کےسپیشل پراسیکیوٹر زاہدمحمود سے رابطہ کیاگیاتو انھوں نے بتایاکہ استغاثہ نے کیس میں پیشہ ورانہ طورپرکام کیا۔اخبار کے مطابق جب پوچھاگیاکہ انھوں نےکیس کی کارروائی کےدوران گوگل ریسرچ کاحوالہ دیاہے تو انھوں نے اس پر بات کرنے سے انکار کردیا۔ انھوں نے کہاکہ فیصلہ کیاجاچکاہے اور وہ مزید
مقدمے کے میرٹ پر مزید رائے نہیں دے سکتے۔ فیصلے پر مزید بات کیلئےانھوں نےاس نمائندےکوقانونی ماہرین اور ریٹائرڈ ججوں کاحوالہ دیا۔ 69صفحات پرمبنی فیصلے کےمطابق 21جولائی2018کو استغاثہ ملزم کی جانب سےسمگلروں یا منشیات فروشوں کوایفیڈرین کی فروخت سےمتعلق کوئی ثبوت پیش کرنےمیں ناکام رہیں لہذا عدالت کونےفرض کرلیا کہ حنیف عباسی کے پاس 137کلوگرام غیرقانونی ایفیڈرین ہے۔ یہ ذکرکرنابھی اہم ہے کہ استغاثہ ملزم سےکوئی منشیات برآمد نہیں کرسکا۔ تحریری فیصلے میں عدالت نےاستغاثہ کے پیش کردہ ثبوت کوتسلیم کیاکہ 500کلوگرام ایفیڈرین میں سے باقی بچ جانےوالی مقدار عباسی فارماسوٹیکل فیکٹری کی جانب سے ادویات(ڈی-ایس ٹیبلیٹس) کی تیاری میں استعمال کرلی گئی۔ اپوزیشن پی ایم ایل (ن) کےراولپنڈی کی اہم سیٹ این اے-60سےامیدوار کو2018کےعام انتخابات سے چند دن قبل ہی 21جولائی کواڈیالہ جیل بھیج دیاگیا۔عدالت نے تسلیم کیاکہ ایفیڈرین کامتعلقہ قانون میں بطور کنٹرولڈ یا منشیاتی چیز کےذکر نہیں ہے لہذا عدالت نے کسی کیمیائی ماہر کی غیرموجودگی میں گوگل پرتحقیق کا استعمال کیا۔ عدالتی فیصلے میں کہاگیاہے کہ ’’یہ تسلیم کیاجاتاہے کہ کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹنسز ایکٹ1997میں ایفیڈرین کاکوئی ذکرنہیں ہے۔ اس میں مزید کہاگیاہے کہ 85اشیاء کاسی این ایس 1997میں بطورسائیکوٹروپک موادذکرہے لیکن ایفیڈرین ان میں شامل نہیں ہے۔ لہذا عدالت نے گوگل کےمضمون پر انحصارکیاتاکہ ثابت کیاجائے کہ ایفیڈرین کو ’’میٹافیٹمائن‘‘یا’’میتھم فیٹامائن‘‘ کی تیاری
میں استعمال کیاجاتاہے اس کا ذکرفہرست کی سیریل نمبر47 میں موجودہے۔ عدالت کو کیمسٹ یا ماہرنہیں ہے اوراس حوالے سےکسی کیمیائی ماہر یا کیمسٹ نے اس عدالت کی مدد نہیں کی، تاہم یہ عدالت گوگل پر گئی اور اس ویب سائٹ کے مطابق ’’میتھم فیٹامائن‘‘ کی تیاری میں شامل ہونے والی اشیاء میں ایفیڈرین بھی شامل تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1990کےمضمون کوفیصلےمیں مکمل طورپر کاپی پیسٹ کیاگیاتھا۔ فیصلے میں کہاگیاہے کہ گوگول ’’ریسرچ‘‘ نے واضح کردیاہے کہ ’’میتھم فیٹامائن‘‘ کو ایفیڈرین کےاستعمال سےتیار کیاجاسکتاہے۔ ’’ اس طرح یہ عدالت بغیر ہچکچاہٹ یہ قراردیتی ہے کہ اگرچہ ایفیڈرین کاذکرسی این ایس اے1997کےشیڈول میں موجود نہیں اور یہ نہ ہی سی این ایس اے1997کی سیکشن 2 میں بتایاگیاہے لیکن پھر بھی یہ کنٹرولڈ اشیاء کی تعریف پر پوری اترتی ہے جیساکہ کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹینسزایکٹ1997کی سیکشن k2)2 )میں بتایاگیاہے۔‘‘ دوسری جانب عدالت کو ایسا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا کہ حنیف عباسی نے اس شئےکو بلیک مارکیٹ میں فروخت کردیا۔ تاہم عدالت کہتی ہے کہ اگرچہ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہاکہ عباسی نے کسی کو ایفیڈرین فروخت کردی ہے۔ فیصلے میں کہاگیاہے، ’’لیکن تب بھی یہ عدالت کاخیال ہے کہ ملزم گریز فارماسوٹیکل کمپنی کامالک یاشریک مالک ہونے کےناطے ایفیڈرین کاقانونی استعمال بتانے کاپابندتھا۔ ‘‘ ’’قانون کے مطابق یہ گمان کرلیاگیاکہ الفا کیمیکل لاہور 500کلوگرام ایفیڈرین سے خریدنے کےبعد 363کلوگرام ڈی ایسم ٹیبلٹ بنانے میں استعمال کرلی گئی اور باقی 137کلوگرام ایفیڈرین تاحال ملزم کے پاس ہے
رپورٹ کے مطابق عباسی کے وکیل نے دلیل دی کہ باقی مقدار بھی ادویات کی تیاری میں استعمال کرلی گئی اور رسیدیں بھی پیش کی گئی اورفارماسوٹیکل کمپنیوں کی بینک سٹیٹمنٹ بھی پیش کی گئی تاکہ ادویات کی فروخت ثابت کی جاسکے لیکن عدالت نے شواہد کو نامناسب قراردےدیا۔ عدالت نے دفاعی دلائل بھی مسترد کردیئے کہ حنیف عباسی کو مجرم قرار اور سی این ایس اے1997کے تحت سزا نہیں دی جاسکتی بلکہ انھیں ڈرگ ایکٹ 1976کےتحت اسلام آباد کی وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ ان کےلائسنس کےصرف قواعدوضوابط کی خلاف ورزی پرسزاہوسکتی ہے۔ عدالت نے تمام سات ملزمان بشمول حنیف عباسی کےبزنس پارٹنرکوشک کافائدہ دیتے ہوئےبری کردیا۔ تاہم حنیف عباسی کو شک کا فائدہ نہیں دیاگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 9000کلوگرام ایفیڈرین رکھنےکاپی پی پی کےدو سیاستدانوں بشمول موسیٰ گیلانی (سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کےبیٹے)اور مخدوم شہاب الدین کا کیس سالوں سے التواکاشکارہےکیونکہ ملزمان اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیاہے کہ موجودہ قوانین کےتحت ایفیڈرین ایک نان کنٹرولڈمواد ہے۔ ایک موقع پر تین ملزمان رضیہ زاہدبختاور، آصف شیخانی اور ذوالفقارشیخانی کے خلاف ایف آئی آر ختم کرتے ہوئے فیصلے میں کہاگیا:’’قانون کے طے شدہ اصولوں کے مطابق استغاثہ ملزمان کے خلاف کیس ثابت کرنے کاپابند ہے اوراستغاثہ کے شواہد میں کسی بھی شک کی صورت میں ملزم کو فائدہ دیاجائےگا۔‘‘ عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہاگیاکہ ’’اگرچہ اے این ایف کےایس پی پی اور ڈپٹی ڈائریکٹر کی جانب سے یہ دلیل دی گئی کہ سی این ایس 1997کی شق29کےتحت مدعاعلیہ پر اس کا کیس ثابت کرنے کی ذمہ داری ہے لیکن یہ عدالت کاخیال ہے کہ سوسال پرانےفوجداری نظام انصاف کےاصولوں کےتحت بنیادی طورپر ثابت کرنے کابوجھ استغاثہ پر ہےاور استغاثہ کایہ فرض ہےلہذا اپنی قانونی ڈیوٹی سے بچ نہیں سکتا۔۔‘