اسلام آ باد: سپریم کورٹ نے اورنج لائن ٹرین منصوبے سے متعلق عبوری حکم نامہ کردیا، چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شہری اورنج لائن ٹرین منصوبے میں اتنی تاخیر برداشت نہیں کرسکتے۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب 4 بجے پیش ہوں ،وزیراعلیٰ پنجاب سے کہیں اپنے جہاز پر آجائیں۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے اورنج لائن منصوبے سے متعلق کیس کی سماعت کی،پروجیکٹ ڈائریکٹر نے عدالت کو بتایا کہ پہلی ٹرین ممکنہ طورپر 30 جولائی 2019 کو چلے گی۔چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ منصوبہ تاخیرکاشکارکیوں ہوا؟،پروجیکٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ اورنج لائن منصوبہ 22 ماہ تک بندرہا،منصوبے کا 80 فیصدسول کام مکمل ہوچکا۔پروجیکٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ منصوبے کے سول ورکس کی لاگت 531.68 ملین ڈالرہے،الیکٹرومکینیکل ورک کیلئے 922 ملین ڈالرکی فنڈنگ ہے جبکہ922 میں سے 628 ملین ڈالرخرچ کیے جاچکے ہیں۔پروجیکٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ نیسپاک اور چینی کمپنی سی ای سی منصوبے کے کنسلٹنٹ ہیں،کنسلٹنسی کی فیس 24 ملین ڈالر ہے۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر نے عدالت کو بتایا کہ منصوبے کو ایگزیم بینک فنڈنگ کررہاہے،دیگرمتعلقہ منصوبے ایل ڈی اے کی زیرنگرانی چل رہے ہیں،پیکج ون،ٹو،تھری پرسول ورک 30 اکتوبرکومکمل ہوگااورسول ورک بعدالیکٹرومکینیکل ورک شروع ہوگا،ٹھیکیداروں کورقم کی ادائیگی تقریباًہوچکی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ لگتاہے منصوبے کی رکاوٹیں ہمیں ہی دورکرناپڑیں گی،چیف جسٹس ثاقب نثارنے ٹھیکیداروں کوروسٹرم پربلالیااور استفسار کیا کہ میٹرو اتھارٹی کا سربراہ کون ہے ۔پروجیکٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ میٹرواتھارٹی کے سربراہ وزیراعلیٰ ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب 4 بجے پیش ہوں،
وزیراعلیٰ پنجاب سے کہیں اپنے جہاز پر آجائیں،رکاوٹیں دور کرنا سرکاری بابوﺅں کا کام نہیں ۔اس پر سربراہ پراجیکٹ نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو نہ بلوائیں ہم فیصلہ کرلیں گے،منصوبہ مکمل ہونے میں 11 ماہ مزیدلگیں گے ،چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ 11 ماہ میں منصوبہ مکمل ہو گا۔وکیل شاہد حامد نے کہا کہ ٹھیکیداروں کو 17 اپریل کے بعد کے بعد کوئی ادائیگی نہیں ہوئی،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ لگتا ہے منصوبے کی راہ رکاوٹیں عدالت نے دور کرنی ہے ۔چیف انجینئر ایل ڈی اے نے کہا کہ ایکنیک کی منظوری کے بعد منصوبے کی ادائیگیاں ممکن ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ کوشش کریں گے منصوبے 30 جولائی سے پہلے شروع کرائیں،تمام متعلقہ حکام ساتھ بیٹھ کر مسئلہ حل کیوں نہیں کرتے،ہر محکمہ اپنا کام دوسرے پر ڈال رہا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کو منصوبے کی وجہ مشکلات کا سامنا ہے ،پراجیکٹ انچارج نے کہا کہ ستمبر کو عہدے سے مستعفی ہو رہا ہوں ،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف عوامی مفاد میں کیس سن رہی ہے، مستعفی ہونانہ ہونا آپ کی صوابدید ہے،عدالت نے سماعت دو بجے تک ملتوی کر دی۔