تحریر: نادیہ خان بلوچ
ابھی چند روز قبل چینل سارچنگ کرنے کے دوران ایک نجی نیوز چینل کی ہیڈ لائنز پہ نظر پڑی تو ہاتھ اچانک وہیں رک سے گئے. ایسے لگا ریموٹ ہاتھ سے چھوٹنے کو ہے. میری سانسیں خوف کے مارے گلے میں اٹک کے رہ گئیں خبر ہی کچھ ایسی تھی یقینا جس کسی نے بھی یہ خبر سنی ہوگی اسے بھی میری طرح ہی دھچکا لگا ہوگا.نجی چینل پہ چلنے والی خبر جو بریکنگ نیوز بنا کے دکھائی جارہی تھی کچھ یوں تھی کہ کراچی شہر کے رہائشی غلام باری نامی شخص نے جو کہ ایک سرکاری بینک آفیسر بھی ہے اپنے ہاتھوں سے چھریوں کے وار کرکے اپنی ماں اپنی جنت اپنی چھاؤں کا قتل کر ڈالا.اور ساتھ اس سفاک،بے رحم اور شیطان صفت انسان کی تصویر بھی دیکھائی جارہی تھی.
اسکے چہرے پر سنت نبوی کے مطابق داڑھی سجی تھی اور ماتھے پر سجدوں کے ہلکے ہلکے نشان بھی موجود تھے میرا دل دہل گیا مجھے اپنے کانوں پر یقین ہی نہ آیا. کوئی بیٹا ایسے کیسے کرسکتا ہے؟ اپنے ہاتھوں سے اپنی جنت اجاڑ دے؟میرے دل میں ایک خیال سا آیا مجھے ایسا لگا کہ کہیں ریٹنگ کے چکر میں میڈیا ماں بیٹے کے مقدس رشتے کو تونشانہ نہیں بنا رہا؟ شاید مرچ مصالحہ لگا کے بات اچھال رہا ہے. ایسا ہو ہی نہیں سکتا. بات کچھ اور ہی ہوگی. مگر تب میرے سارے وہم دھواں ہوگئے جب اسکے اپنے منہ سے اقبال جرم سنا. اس نے خود اقرار کیا کہ اس نے قتل کیا. اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اس نے شیطان کی ماں کا قتل کیا. (یعنی کہ خود اس نے ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ انسان کے روپ میں شیطان ہے) جب پوچھا گیا شیطان کون ہے؟ تو ڈرامے کرنے لگا جیسے اس پہ بھوتوں کا سایہ ہو حق حق کرنے لگا. پھر اس نے یہ بھی کہا کہ اسے اپنے کیے پر ذرا بھی افسوس نہیں. اس نے بہت اچھا کام کیا ہے حق پہ قتل کیا. قتل کی وجہ اس نے یہ بتائی کہ اسکی والدہ گھر میں جھگڑے کراتی تھی.
تبھی ایسا نیک کام کیا (بقول اسکے یہ تو نیک کام ہی ہے) اس شیطان کو جس نے زندگی دی اسکا قتل کرنے سے دو روز قبل اس نے اپنی شریک حیات کو بھی گھریلو ناچاقی کی بنا پر طلاق دے دی تھی. اس شیطان کو ذرا بھی رحم نہ آیا اسکی روح نہ کانپی؟ اسکے ضمیر نے اسے ملامت نہ کی جب اس نے قتل کیا. کس قدر پیار و محبت سے لاڈ اٹھا کرپالا ہوگا. کتنی راتیں جاگ کر گزاری ہوگیں جب کبھی راتوں کو یہ رویا ہوگا اسے بھوک لگی ہوگی. جس نے اپنے زندگی خطرے میں ڈال کر اسے زندگی دی اس نے اسی کو ہی زندگی سے جدا کر دیا. وہ بوڑھی ماں کس قدر تڑپی ہوگی چیخی ہوگی چلائی ہوگی کہ مجھے مت مارو مگر اسے ذرا بھی ترس نہ آیا. یہ شیطان جو خود کو حق ذات کا ماننے والا کہتا ہے کیسے خود زندگی لینے والا بن گیا؟ کس نے حق دیا کہ تو ماں کو مار ہی ڈال؟ ارے ماں تو خدا کا ہی ایک روپ ہے. ماں سے بڑھ کے تو کوئی رشتہ مخلص ہو ہی نہیں سکتا. ماں تو ماں ہوتی ہے چاہے اچھی ہو یا بری. اس ماں کی عمر بھی تو 70 برس سے اوپر تھی اسکے کمزور وجود پہ بھی اسے رحم نہ آیا؟ میری تو اب بھی لکھتے ہوئے آنکھیں بھیگ گئی ہیں اور اسے پچھتاوا تک نہیں. قرآن کہتا ہے ماں باپ کو اف تک نہ کہو قتل کا تو جواز ہی پیدا نہیں ہوتا. بیوی تو دوسری بھی مل سکتی ہے مگر ماں نہیں.
ابھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کیلیے میرے خود کے پاس بھی خود کو دینے کیلیے جائز دلائل موجود نہیں تھے ایک اور خبر بھی قیامت صغری بن کے گری. شیخوپورہ کی رہائشی شبانہ نامی والدہ نے ایک جعلی ڈھونگی بابا کے بہکاوے میں آکر اپنے اکلوتے بیٹے کا ازاربند سے گلہ گھونٹ دیا.عامل بابا نے اسے کہا تھا اگر تم اپنے بیٹے کو مار ڈالو تو تمہارے حالات سدھر سکتے ہیں. بم مالی طورپر خوشحال زندگی گزار پاؤ گی پھر. اس نفسیاتی مریضہ ماں نے اپنے نفس کے سکون کی خاطر اپنے گھر کا چراغ بجھا دیا. یہ صرف ایسے دو واقعات نہیں جن پہ انسانیت شرمندہ ہو ایسا تو آئے روز ہورہا ہے. کیا ہوگا ہمارا؟ ہم تو گمراہ ہوگئے ہیں. بھٹک گئے ہیں. ہمارا رہن سہن آداب و اخلاق رشتوں کا تقدس دین اسلام اللہ کے احکام تو جیسے کہیں بہت پیچھے ہی رہ گئے ہے. اپنے ہی ہاتھوں سے رشتوں کا خون کر رہے ہیں. اور اگر کوئی دوسرا نہ مارے تو خود ہی موت کو تمام مسائل کا حل سمجھ کے آخری آپشن سمجھ لیتے ہیں خود پھانسی لٹک جاتے ہیں.
کہیں کوئی باپ غیرت کے نام پر بیٹی کا قتل کررہا ہے تو کہیں کوئی بیٹی محبت کے نام پر باپ کی عزت اچھالتی پھرتی ہے. کہیں کوئی بھائی عزت کے نام پر بہن کو رواجوں میں قید کررہا ہے تو کہیں کوئی بھائی باپ اپنے ہی ہاتھوں سے عزتوں کا سودا کررہا ہے. کہیں کوئی بیٹا ماں کا قتل کررہا ہے اسے شیطان کی ماں کہہ رہا ہے تو کہیں کوئی ماں اپنے ہی بیٹے کا قتل کررہی ہے. یہ سب کس نے سکھایا؟ ہماری دین میں تو نہیں. یہ سب ہمیں سکھا رہے ہیں ہمارے ملک میں چلنے والے انڈین ڈرامے. وہاں بھی تو یہی ہوتا ہے کبھی بیٹے کے ہاتھوں ماں کا قتل تو کبھی ماں کے ہاتھوں بیٹے کا قتل اور ایسے بیشمار معاملات.
خدارا ہم پہ رحم کریں. ہمیں انٹرٹینمنٹ کے نام پر رشتوں کا خون کرنے کے نئے نئے حربے نہ سکھائیں. اور نہ ہی اسکی ناجائز وجوہات کو جائز بنائیں. قتل تو کسی صورت جائز نہیں. یہ ماڈرن ازم کے چکر میں ہمیں رشتوں کا خون ہونا گوارہ نہیں. ہمیں اخلاق سکھایا جائے رشتوں کی اہمیت بتائی جائے. اسلام کو دقیانوسی سوچ کا نام دے کر ہمیں اس سے دور نہ کیا جائے ہمیں یہ نہ بتایا جائے کہ مغرب کیا کہتا ہے ہمیں یہ سکھایا جائے ہمارا دین اسلام ہمیں کیا تعلیمات دیتا ہے. مذہب کیا سکھاتا ہے. ہمیں ایک ہونے کی ضرورت ہے. تخریب کاری اب مزید برداشت سے باہر ہے.
تحریر: نادیہ خان بلوچ