لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے اتحادیوں اور اپنی جماعت کے اندر سیاسی بغاوتوں کا سلسلہ پنجاب سے شروع ہوا اور اب اس نے کے پی کے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بیوروکریسی جو آصف علی زرداری‘ یوسف رضا گیلانی‘ پرویز اشرف‘ نواز شریف‘ شہباز شریف‘ خاقان عباسی کے
نامور کالم نگار صابر شاکر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔سامنے چوں چراں بھی نہیں کرتی تھی‘ گزشتہ سترہ ماہ سے میرٹ اور خود مختاری اور حکومتی و سیاسی مداخلت کے بخار میں مبتلا ہے۔ پہلے تمام اتحادی حرکت میں آئے اور خود کار نظام کے تحت از خود ناراض ہو گئے۔ ان کا پریشر کْچھ کم ہوا تو پی ٹی آئی کے اپنے وزرا اتحادیوں کی معمولی سی پسپائی کا شائبہ محسوس کرتے ہوئے خود میدان میں اتر آئے‘ اور اپنی ہی حکومت کا چارج شیٹ کرتے ہوئے نظر آئے۔ اب یہ وائرس وفاق سے ہوتا ہوا پنجاب کے پی کے اور بلوچستان تک پھیل گیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) نے پنجاب میں کافی حد تک اپنے اہداف حاصل کر لیے ہیں اور مرکز میں ان کی دلچسپی کْچھ زیادہ نہیں ہے۔ دراصل چوہدری صاحبان اگلی اننگز کی تیاری کر رہے ہیں‘ جس میں ان کا قرعہ نکلنے کے کافی امکانات ہیں۔ صوبے کے چیف ایگزیکٹو وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اپنی ہی ماتحت منہ زور بیوروکریسی کو قابو کرنے اور کسی بھی متوقع بغاوت کو کچلنے کے لیے اپنے ہی ہم خیال ارکانِ اسمبلی کا ایک پریشر گروپ بنا لیا ہے۔جنوبی پنجاب گو کہ ایک پسماندہ علاقہ ہے اور مرکز سے بہت دور ہونے کی وجہ سے ہمیشہ نظر انداز رہا ہے لیکن یہاں کے سیاستدان ہوں یا بیوروکریٹ یا اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان اور صحافی‘ وہ ہمیشہ قسمت کے دھنی رہے ہیں۔ ان میں سیاسی بصیرت بھی قدرے زیادہ ہی پائی گئی ہے اور وہ ہمیشہ
فرنٹ فٹ پر کھیلے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو چیلنج کرنے والے غلام مصطفی کھر‘ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو چیلنج کرنے والے صدر فاروق خان لغاری اور صدر زرداری کو چیلنج کرنے والے شاہ محمود قریشی کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہی تھا۔ تمام سول اور فوجی حکومتوں کی ناک میں دم کرنے والے سیاست دان نوابزادہ نصراللہ خان کا تعلق بھی اسی پٹی سے تھا۔ پی پی پی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور پھر صدر آصف علی زرداری کا اعتماد حاصل کرنے والے سید یوسف رضا گیلانی کا تعلق بھی جنوبی پنجاب ہی سے ہے۔ سیاست میں سب سے زیادہ رسک لینے کے ماہر جاوید ہاشمی بھی اسی پٹی سے ہیں۔ پرویز مشرف کے لیے پی پی پی میں بغاوت کرنے والے رضا ہراج برادرز اور فیصل صالح حیات بھی جنوبی پنجاب ہی سے ہیں۔ محترمہ بے نظیر کے پہلے دور میں پی پی پی میں نواز شریف کے لیے پنجاب اسمبلی میں پہلا فارورڈ بلاک بنانے والے منظور موہل کا تعلق بھی جنوبی پنجاب ہی سے تھا۔ یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جنوبی پنجاب معاشی اعتبار سے پسماندہ ہی سہی لیکن سیاسی اعتبار سے انتہائی زرخیز رہا ہے اور اب بھی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے سب سے معتمد سیاسی کھلاڑی جہانگیر ترین بھی جنوبی پنجاب ہی سے ہیں۔ عثمان بزدار بھی اسی پٹی سے ہیں اور اب وہ اوپر بیان کیے گئے کس درجے میں اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں‘ اس کا پتا آنے والے دنوں میں ہی چلے گا
کہ وہ آسان ہدف ہوں گے یا مشکل ترین؛ البتہ انہوں نے اب تک ثابت کیا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ ہیں اور اب ان کا مقابلہ چومْکھی لڑائی لڑنے والوں سے ہے۔ انہوں نے اب تک عمران خان کا اعتماد حاصل کر رکھا ہے اور ان کا کِلّہ مضبوط ہے۔ ان کے قسمت کے دھنی ہونے کا پہلا ثبوت تو یہ کہ پی ٹی آئی کے بڑے بڑے ناموں کو نظر انداز کرتے ہوئے عمران خان نے زیرو میٹر عثمان بزدار کو سب سے بڑے صوبے کی کمان دے دی اور انہیں وسیم اکرم پلس کا نام دیا۔ ابتدائی دنوں سے ہی جماعت کے اندر بھی اور پاور پلیئرز میں بھی ان کی ایک اچھی خاصی اپوزیشن موجود ہے اور ان کو تبدیل کرنے کی خواہش اکثر عمران خان کے سامنے کی جا چکی ہے۔ میڈیا میں بھی عثمان بزدار کے خلاف بھاری بھرکم مہم جاری ہے‘ لیکن نتیجہ ندارد۔ عمران خان ابھی تک ان کے ساتھ کھڑے ہیں‘ یہاں تک کہ اپنے معتمد ترین دو ساتھیوں عون چودھری اور شہباز گل کو بھی پنجاب بدر کر چکے ہیں اور وسیع تجربے کے حامل گورنر پنجاب چوہدری سرور کے کردار کو بھی محدود کروانے میں کامیاب رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب سے ایک اور دبنگ مثال سابق چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی ہے‘ جنہوں نے اپنے مختصر دور میں تاریخ کا سب سے بڑا فیصلہ دیا۔ ان کے بھائی طارق کھوسہ اور ناصر سعید کھوسہ بھی با اثر بیوروکریٹس میں شامل ہیں۔ نام اور مثالیں تو اور بھی بہت ہیں لیکن ابھی یہی کافی
ہے۔ پنجاب کے بعد کے پی کے میں بھی عمران خان کے نامزد کردہ وزیر اعلیٰ زیر عتاب ہیں۔ محمود خان کا انتخاب بھی عمران خان نے انہی اصولوں اور اسی سوچ کی بنیاد پر کیا تھا‘ جو حکمت عملی عثمان بزدار کے بارے میں تھی۔ کے پی کے میں بھی پرویز خٹک‘ عاطف خان اور بڑے بڑے دھڑوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کپتان نے قدر ے کمزور اور نئے کھلاڑی کے حوالے صوبے کی کمان کی۔ اب وہاں بھی پارٹی کے اندر سے بغاوت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ محمود خان کو بھی تبدیل کرنے کی خواہش متعدد بار کی گئی‘ لیکن خان نے ہمیشہ اس خواہش کو نظر انداز کیا اور اپنا وزن پوری قوت کے ساتھ محمود خان کے پلڑے میں ڈالا۔بلوچستان میں وزیر اعلیٰ جام کمال کو بھی بیرونی نہیں بلکہ اندرونی بغاوت کا سامنا ہے۔ ان کے اپنے ساتھی قدوس بزنجو نے ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے اور پُر اعتماد بھی ہیں‘ لیکن جام کمال بھی سکون سے کام کر رہے ہیں۔ سوچنے کی بات ایک ہی ہے کہ مرکز اور تینوں صوبوں میں اچانک اندرونی بغاوت کا سلسلہ کیوں شروع ہوا؟ کیا یہ محض اتفاق ہے‘ حسنِ اتفاق یا پھر ان تحریکوں کا آرکیٹیکٹ ایک ہی ہے؟ مولانا فضل الرحمن اپریل میں دوبارہ دھرنے اور مارچ کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو ڈیووس سے واپسی پر کْچھ فیصلے کرنے ہیں جلدی یا بدیر‘ اور ایک سمجھ میں نہ آنے والے سیاسی وائرس کا علاج کرنا ہے۔