اسلام آباد; ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف نواز شریف مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی درخواستوں پر نیب کو جولائی کے تیسرے ہفتے کے لیے نوٹس جاری کر دیا ہے۔عدالت نے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس دوسری عدالت کو منتقل کرنے کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے،
پراسیکیوٹر جنرل نیب کو جولائی کے آخری ہفتے میں طلب کرلیا۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اسلام آباد ہائیکورٹ کے دورکنی بینچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا پانے والے مجرموں کی درخواستوں پر سماعت کی ۔العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی منتقلی سے متعلق درخواست پر خواجہ حارث نے دلائل دئیے کہ ایون فلیڈ ریفرنس میں سزا سنانے کے بعد احتساب عدالت نمبر ایک کے جج محمد بشیر کو العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کسی دوسرے جج کو منتقل کر دینی چاہیے کیونکہ ملزمان اس کیس میں منی ٹریل عدالت میں پیش کر چکے ہیں جس پر ٹرائل کورٹ کے جج فیصلہ سنا چکے ہیں۔چونکہ تینوں ریفرنس میں ملزمان کا دفاع مشترکہ ہے اس لیے جج محمد بشیر دیگر دو ریفرنسز پر سماعت آگے نہیں بڑھا سکتے۔خواجہ حارث نے کہا کہ جج محمد بشیر نے دو ریفرنسز سے متعلق ہائیکورٹ کو خط بھی لکھا ہے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ خط کا معاملہ انتظامی ہے اسے معزز چیف جسٹس دیکھیں گے، ہم نے اس پر فیصلہ کرنا ہے جو درخواست ہمارے سامنے ہے، عدالت نے درخواست کا فیصلہ آنے تک العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے نیب کو نوٹس جاری کردیا۔
سزا کیخلاف اپیلوں پر دلائل دیتے ہوئےخواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے فلیٹس کی اصل قیمت جانے بغیر سزا سنادی، عدالت میں پیش کی گئی ٹائٹل رجسٹری پر بھی فلیٹس کی قیمت خرید درج نہیں،ظاہر آمدن اور اثاثوں سے متعلق جو چارٹ پیش کیا گیا اس سے متعلق تفتیشی افسر کو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ کن دستاویزات کی بنیاد پر اور کس نے تیار کیا ہے، واجد ضیاء نے تسلیم کیا کہ نوازشریف کی طرف سے بچوں کو رقم کی فراہم سے متعلق کوئی ثبوت نہیں ہے۔مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے وکیل امجد پرویز نے موقف اختیار کیا کہ بی وی آئی حکام نے جے آئی ٹی کے خطوط کا جواب ہی نہیں دیا، جن خطوط پر انحصار کیا گیا وہ دوہزار بارہ کے ہیں، محض کیلبری فونٹ کو بنیاد بنا کر ٹرسٹ ڈیڈ کو جعلی قرار دےدیا گیا جبکہ جیرمی فری مین نے تصدیق کی کہ ٹرسٹ ڈیڈ پر 4فروری دو ہزار چھ کو ان کے دفتر میں دستخط کیے گئے۔امجد پرویز نے کہا کہ ایک سو چوہتر صفحات پر مشتمل فیصلے میں کیپٹن صفدر سے متعلق ایک ہی جملہ ہے جس میں سزا لکھی گئی ہے۔عدالت نے ٹرائل کورٹ سے مقدمے کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے عملے کو ہدایت کی کہ سو سو صفحات پر مشتمل والیم بنوا لیں تاکہ لانے اور جانے میں آسانی رہے۔عدالت نے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع جاری کرنے اور ضمانت پر رہائی دیے جانے کے حوالے سے درخواستوں پر سماعت بھی جولائی کے آخری ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔سماعت جولائی کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کرنے کے نتیجہ میں نواز شریف ، مریم اور کیپٹن صفدر کو الیکشن تک جیل میں ہی رہنا ہو گا۔