counter easy hit

بریکنگ نیوز: پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام خطرناک ترین مرحلے میں داخل ۔۔۔جلد کیا ہونیوالا ہے ؟ تازہ ترین خبر

Breaking News: The IMF program for Pakistan enters the most dangerous phase - what's going to happen soon? Latest news

اسلام آباد(ویب ڈیسک)آئی ایم ایف پروگرام خطرناک زون میں داخل ہوچکا ہےلیکن حکومت پھر بھی اقتصادی کامیابی پر خوش ہے۔رواں مالی سال کے دوران صوبے مطلوبہ ریونیو سرپلس جمع کرنے میں ناکام رہے ہیں ، یہی وجہ ہے آئی ایم ایف فنڈ پروگرام رواں مالی سال کی دوسرے ششماہی کے دوران کسی بھی وقت معطل ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق،مالی سال 2018-19کے دوران اگر صوبے 138اعشاریہ87ارب روپے کا ریونیو سرپلس اکٹھا کرنے میں ناکام ہوجاتے تو پاکستان کا بجٹ خسارہ یقینی طور پر جی ڈی پی کے 9فیصد سے تجاوز کرجاتا۔پی ٹی آئی دور حکومت کے پہلے سال میں بجٹ خسارہ 3444ارب روپے یعنی جی ڈی پی کے 8اعشاریہ9فیصد تک پہنچ چکا ہے۔جب کہ پاکستان کا بنیادی خسارہ بھی بڑھ کر 2018-19میں جی ڈی پی کا 3اعشاریہ6فیصد ہوچکا ہے۔اب آئی ایم ایف کے 6ارب ڈالرز کے بیل آئوٹ پیکج کے تحت حکومت نے بنیادی خسارے کو 2018-19کے جی ڈی پی کے 3اعشاریہ6فیصد سے کم کرکے رواں مالی سال کے دوران اعشاریہ6فیصد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ان حالات کے پیش نظر اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ بنیادی خسارے کو اتنی جلد کم کرنا تقریباً ناممکن ہےلہٰذا آئی ایم ایف پروگرام خطرناک زو ن میں داخل ہوچکا ہے۔سنہ 1947 میں وجود میں آنے کے صرف تین سال بعد پاکستان 11 جولائی 1950 میں آئی ایم ایف کا ممبر بنا تھا اور گذشتہ 69 برسوں میں قرضے کے حصول کے لیے 21 مرتبہ آئی ایم ایف جا چکا ہے۔معاشی امور پر لکھنے والے صحافی خرم حسین کا کہنا ہے کہ سنہ 1988 سے پہلے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ہونے والے معاہدے قلیل مدتی بنیادوں پر ہوتے تھے جن میں عمومی طور پر قرض معاشی اصلاحات سے مشروط نہیں ہوتے تھے۔تاہم سنہ 1988 کے بعد ’سٹرکچلرل ایڈجسمنٹ پروگرامز` شروع ہو گئے۔’سٹرکچلرل ایڈجسمنٹ پروگرامز‘ یعنی ایس اے پی وہ ہوتے ہیں جن میں قرض دینے والا ادارہ شدید معاشی مشکلات کے شکار قرض حاصل کرنے والے ممالک کو مخصوص شرائط کے تحت نیا قرض دیتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ممبر ممالک جو قرض حاصل کرتے ہیں وہ ان ممالک کے ہی پیسے ہوتے ہیں۔ ہر ممبر ملک آئی ایم ایف کو اپنے حصے کے پیسے دیتا ہے اور اس حصے کے عوض آئی ایم ایف ہر ممبر ملک کا ایک کوٹہ بناتا ہے اور اس کوٹے کے اندر رہ کر آئی ایم ایف سے ضرورت کے تحت قرض حاصل کیا جاتا ہے۔’اگر کوئی ممبر ملک اپنے مخصوص کوٹے سے زیادہ قرض حاصل کرنے کا خواہاں ہے تو یہ قرض مشروط ہوتا ہے اور قرض حاصل کرنے والے مملک کو چند معاشی اصلاحات پر مبنی شرائط پوری کرنی پڑتی ہیں۔`اس مرتبہ امریکہ ہمارے ساتھ کیوں نہیں خرم حسین نے مزید بتایا کہ پاکستان کا اصل مسئلہ آئی ایم ایف کو حاصل ہونے والے قرض کی واپسی نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی طرف سے عائد کردہ شرائط کو پورا نہ کرنا ہے۔’پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ پاکستان قرضہ تو لے لیتا ہے مگر قرض کے حصول کے وقت وعدہ کی گئی شرائط، جیسا کہ معاشی اصلاحات، پورا نہیں کرتا۔`انھوں نے بتایا کہ اس مرتبہ قرض کے حصول میں امریکہ ہمارا سفارشی نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ شرائط پوری نہ کرنے پر آئی ایم ایف سے نئے قرض کے حصول میں مشکلات پیش آتی ہیں اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب پاکستان کو امریکی سفارش کی ضرورت پڑتی ہے۔’پاکستان آدھی پونی شرائط پوری کرتا ہے، امریکہ سے سفارش کرواتا ہے اور آئی ایم ایف نیا قرضہ دے دیتا ہے۔` ان کا کہنا تھا کہ ’سنہ 2019 کا پروگرام پرانے پروگراموں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس مرتبہ پاکستان کے پاس امریکہ کی کسی قسم کی سفارش موجود نہیں ہے۔` سٹیٹ بینک میں ہونے والی گورنر کی تقرری کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کر کے پاکستان کو ایک پروگرام دے دینا ہے جو کسی صورت ملک کے لیے بہتر نہیں ہو گا۔‘صحافی شہباز رانا کہتے ہیں کہ نئے قرض کے پاکستانی معیشت اور عوام پر قلیل مدتی اور طویل مدتی فوائد اور نقصانات ہوں گے۔’اگر قلیل مدتی اثرات کی بات کی جائے تو یہ قرضہ پاکستان کے لیے کسی حد تک معاشی استحکام کا باعث بنے گا اور اس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال ہو گا جبکہ معاشی پالیسیوں میں بہتری کا عنصر آئے گا۔ دوسری جانب روپے کی قدر میں کمی اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی وجہ سے بالواسطہ عوام متاثر ہوں گے اور مہنگائی بڑھے گی اور تمام درآمدی اشیا کی قیمت بڑھے گی۔`ان کا کہنا تھا کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جبکہ شرح نمو آئندہ برسوں میں کم رہے گی۔صحافی خرم حسین کہتے ہیں کہ پاکستانی عوام پر اس قرضے کے شدید معاشی اثرات ہوں گے۔’مزید ٹیکس لگانے پڑیں گے، محصولات کو بہتر کرنا پڑے گا، شرح سود کو بڑھانا پڑے گا اور روپے کی قدر کو مزید گرانا پڑے گا۔`’معاشی میدان میں موجودہ مشکلات اور مہنگائی میں صحیح معنوں میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط ہر عملدرآمد کے ساتھ شروع ہو گا۔`

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website