تحریر: عاقب شفیق
قوم کا سب سے پائدار ستون اسکے نوجوان ہوتے ہیں۔ قوموں کے مستقبل کا انحصار نسلِ نو کی تربیت پر ہوتا ہے۔ اقوام عالم میں وہی قومیں زندہ و جاوید رہتی ہیں جو نسلِ نو کی تربیت میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھیں۔ اقبال فرماتے ہیں کہ :
وہ کل کے غم و عیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا
جو آج خود افروز جگر سوز نہیں ہے
وہ قوم نہیں لائقِ ہنگامہء فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے
آئیے، جانتے ہیں،
عصرِ حاضر میں دنیا کا سب سے تعلیم یافتہ ملک اسرائیل ہے۔ اس کی شرحِ خواندگی صدفیصد ہے۔ اسرائیل آبادی اور رقبے، دونوں کے لحاظ سے ایک انتہائی چھوٹا سا ملک ہے۔ یہودیوں کی پوری دنیا میں آبادی فقط اعشاریہ دو فیصد ہے اور انکی دنیا کی ستر فیصد معیشت پر اجارہ داری ہے۔ساڑھے آٹھ سو میں سے اکتالیس نوبل انعام یہودیوں کے حصے میں گئے۔
ڈاکٹر سٹیفن کارلیون تین برس کے لیئے کیلیفورنیا سے اسرائیلی ہسپتالوں میں انٹرن شپ کے لئے گئے۔ ڈاکٹر کارلیون کہتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ اسرائیل نہ صرف دنیا کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتا ہے بلکہ دنیوی معیشت پر بھی اس کی اجارہ داری ہے۔ اسرائیل کے سیاست دان دنیا کے سب سے کامیاب سیاست دا ن ہیں۔اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ تمام اسرائیلی بہت ہی زیادہ ذہین دماغ کے مالک اور قابل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر سٹیفن کہتے ہیں کہ انہوں نے سوچا کہ وہ تین سال تحقیق کریں کہ آخر یہودیوں کو خدا پیدا ہی اتنا ذہین کرتا ہے یا اس پر تعلیمی نظام اثرانداز ہوتا ہے۔
چنانچہ، ڈاکٹر سٹیفن کارلیون اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہاں، وہ پیدا تو عام انسانوں کی مانند ہی ہوتے ہیں لیکن وہاں کی تربیت انہیں دنیا کے عام بچوں سے منفرد بنا دیتی ہے۔ ڈاکٹر کارلیون کہتے ہیں کہ اسرائیل میں جب کوئی لڑکی حاملہ ہوتی ہے تو وہ مسلسل ریاضی مشقیں حل کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ اس امر میں انکا شریکِ حیات بھی انکا ساتھ دیتا ہے ۔ انکا ایمان ہے کہ مائیں جو کچھ کھاتی ، پیتی ، بولتی اور سوچتی ہیں اس کے براہِ راست اثرات حمل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ وہ باقاعدہ Mental Methimatics کرتے ہیں۔انہیں ایسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے جہاں وہ پرسکون رہیں اور انہیں اس بات کا علم ہو کہ وہ جس بچے کو جنم دینے جا رہی ہیں وہ دنیا میں کچھ کر سکنے کی سکت رکھے گا۔
انکی خوراک میں بادام ، انار، کھجور اور مچھلی شامل کی جاتی ہے جس سے ذہنی نشونما میں مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ تو ولادت سے قبل کی تربیت رہی۔ ولادت کے بعد وہ نومولود کو عربی ، عبرانی اور انگریزی لغت بطورِ خاص سکھاتے ہیں۔ انہیں کھیلوں میں تیراندازی، شوٹنگ اور دوڑ میں دلچسپی دلوائی جاتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جن بچوں میں تیراندازی اور شوٹنگ کی دلچسپی ہو وہ زندگی میں بہترین فیصلے کرنے کی استطاعت کے حامل ہوتے ہیں۔ سگریٹ کے تمام بڑے برانڈز یہود یوں کے پاس ہیں لیکن وہ اپنے گھر میں کسی طور سگریٹ نوشی نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سگریٹ نوشی سے نومولود کے ڈی این اے پر خاص قسم کے منفی اثرات مرتب ہو تے ہیں اور یہ بننے والے جینز کوتباہ کر دیتی ہے۔
بچے جب پڑھنے لگتے ہیں تو انہیں کاروباری حساب سکھایا جاتاہے۔یونیورسٹی کے آخری برسوں میں ان کے مختلف گروپس بنائے جاتے ہیں جو عملی پراجکٹس پر کام کرتے ہیں۔ صرف اور صرف اسے ڈگری دی جاتی ہے جو عملاً کاروبار میں دس لاکھ ڈالر کما تا ہے۔ ڈاکٹر سٹیفن کارلیون بتاتے ہیں کہ انہوں نے اسرائیلی اور کیلیفورنیا کے بچوں میں موازنہ کیا تو پتا چلا کہ اسرائیلی بچے چھ برس کیلیفورنیا کے بچوں سے آگے ہیں۔ انہیں یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد روزگارکی فکر نہیں ہوتی کیونکہ یہ پہلے سے ہی کاروباری گروپس میں شامل ہوتے ہیں۔
فطرت کا قانون ہے کہ بکری کبھی شیر کو جنم نہیں دے سکتی۔ یہ بات تو طے ہے کہ، اقوام کے مستقبل کا انحصار نسلِ نو کی تربیت پر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نسلِ نو کی تربیت کیسے کی جانی چاہئے؟ ۔ ان کے مربی کون ہیں؟ ان کی تربیت میں کون سے امور اہم اور کون سے امور غیر اہم ہیں؟ نسلِ نو کی تعمیر ِ شخصیت کن عناصر کا ذمہ ہے اور کون سے عناصر اس کی تربیت پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔کون سے عوامل اس کی ورغلاہٹ کے اسباب مہیا کرتے ہیں اور کون انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں؟ بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو والدین اسکی پہلی تربیت گاہ ہوتے ہیں۔ والدین پر آئندہ نسل اور اس کے مستقبل کی بہت بھاری زمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں، والدین اس امر سے لاعلم ہیں۔ والدین کو انکی اہمیت اور انکی اولاد کی ملک و ملت کے لیئے اہمیت سے روشناس کروانا ہوگا۔ والدین کے بعد معاشرہ اس بچے پہ اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔جس معاشرے میں انسان پلتا ہے وہ اس میں رچ بس جاتا ہے۔ ایسی امثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں جہاں انسان معاشرے کے اثرات سے محفوظ رہا ہو۔
چلیں، ہم یوں کہہ لیتے ہیں کہ والدین معاشرے کے عکاس ہوتے ہیں۔ معاشرے کے تمام تر اثرات والدین کی وساطت سے بچے میں اترتے ہیں۔ اسکے بعد بچے کو سکول بھیجا جاتا ہے ۔ سکول بنیادی طور پر اس کی تربیت کے تمام عناصر لیئے ہوتا ہے ۔ اخلاقی اقدار ، مذاھب کی پہچان اور حقیقت، اخلاقیات اور تاریخ سمیت دیگر اہم ابواب سے اسے سکول میں روشناس کروایا جاتاہے۔ یہاں جو عنصر اس پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتا ہے وہ ہے استاد۔ یعنی والدین اور معاشرے کے بعد استاد بچے پر اثرانداز ہوتاہے۔ استاد تربیت کے معانی بھی سمجھتا ہے اور برے بھلے میں تفریق کے اسباق بھی۔
استاد کو تربیت کے حوالے سے سب سے اہم عنصر کہا جائے تو بات ہرچند غلط نہ ہوگی۔ والدین ، معاشرے اور استاد کے بعد جو عنصر نسلِ نو کی تربیت میں سب سے اہم ہے وہ ہے ”خودشناسی”۔ مذکورہ بالا مراحل سے گزرنے بعد نوجوان کے پاس آگہی اور شعور آ جاتا ہے اب اسے خود صحیح غلط کی پہچان کرنا ہوتی ہے۔اس مرحلے پر آ کر اسے مختلف مکاتب ِ فکر کے لوگ ملتے ہیں۔ اسے مختلف مذاھب ، مسالک اور لسانی تفریق سے آگہی حاصل ہوتی ہے۔نسلِ نو کی تعمیرِ شخصیت پر سب سے زیادہ جو عنصراثرانداز ہوتا ہے وہ نصاب بنانے والے اورتعلیمی نظام کو پرکھنے والے منتظمین ہیں۔سکول میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اور اساتذہ کرام جس نظام کے تابع ہیں وہ ہی درحقیقت نسلِ نو کی تعمیرِ شخصیت کا چوتھا اور سب سے اہم عنصر ہے۔ جن معاشروں میں تاریخ کو پٹخ پٹخ کر دے مارنے کے بعد چند غیر اہم موضوعات کو نصاب میں شامل کر دیا جائے تو اس تعلیمی نظام سے گزرے ایک طالبعلم سے کون سی انقلابی فکر کی توقع کی جا سکتی ہے؟ کس طرح کی قوم کا خواب دیکھا جا سکتا ہے؟اکبر الہ آبادی کیا زبردست کہہ گئے :
ہم ایسی کل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کر بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
حقیقت یہ ہے، اگر ہمیں اپنا مستقبل سنوارنا ہے اور ہم اس معاملے میں سنجیدہ بھی ہیں تو ہمیں اپنے تعلیمی نصاب کے خالقین اور انکی ذمہ داریوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ ہمیں پرکھنا ہوگا اپنے تعلیمی معیار کو ۔ ہمیں علم ہونا چاہئے کہ دنیا کی سب سے ثقیل اور روشن تاریخ ہماری ہے۔ایسے عناصر سے آگہی حاصل کرنا ہوگی جو ہمارے تعلیمی نظام کے معیار پر رعایت برتتے ہیں۔ ہمیں مجبوراً دیگر تعلیم یافتہ و ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نصاب اور تعلیمی نظام سے امثال اخذ کر نا پڑتی ہیں۔ بس، فرق یہی ہے کہ ہمارے پاس ماضی تھا جو وہ پڑھا رہے ہیں اوران کے پاس ہمارے ماضی سے اخذ کردہ حال ہے جس سے ہم امثال اخذ کر رہے ہیں۔ والدین اور تعلیمی پالیسیاں بنانے والے نسلِ نو کی تعمیر ِ شخصیت پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔
آئیں، سمجھتے ہیں، نسلِ نو کی شخصیت کی تعمیر کی بات کرتے ہیں تو آئیں ان عناصر کے بارے جانتے جونسلِ نوپر اثرانداز ہوتے ہیں۔ وہ ہیں۔ بچہ، والدین، استاد، نصابی خالقین /پالیسی میکرز۔ والدین معاشرے کے عنصر کے عکاس ٹھہرے۔بچہ خود تب کچھ فہم و ادراک کی سکت کا حامل ہوگا جب وہ حقیقت شناس ہوگا۔اس کے علاوہ استاد ، سکول اور نصاب مکمل طور پر تعلیمی نظام کے منتظمین پر منحصر ہوتے ہیں۔ استاد اور سکول وہی تعلیم بچے کو دیں گے جو تعلیمی نصاب میں شامل ہوگی کیونکہ اساتذہ کرام ریاستی عنصر کے عکاس ہوتے ہیں۔
معاشرے کے عکاس، یعنی والدین نسل نو کی شخصیت کی تعمیر کے کم ذمہ دار ہیں جبکہ ریاست کے عکاس، یعنی اساتذہ کرام کی ذمہ داری نسبتاً زیادہ ہوگی۔اور ان سب سے بڑھ کر ریاست کے مقرر کردہ تعلیمی نظام کے سرابراہان۔ پس، ہمیں اپنے تعلیمی نظام اور خالقین نصاب پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی کیونکہ ان سے جاری کردہ مواد نسلِ نو کی شخصیت کی عمارت کی بنیاد ہے۔
تحریر: عاقب شفیق