تحریر : ایم اے تبسم
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر ایک نگراں رکھا ہے، جسے ضمیر کہاجاتا ہے۔ ضمیر جب تک جاگتا رہتا ہے ،سب کچھ ٹھیک رہتاہے، مگراس کے مردہ ہوتے ہی اعضائے جسم اچھے برے کی تمیز کھودیتے ہیں اورانسان نفس کی رومیں بہہ جاتاہے۔ضمیر کے بیداررہنے یامردہ ہونے کا کوئی موسم نہیں ہوتا، بلکہ معاشرے میں جب بھی برائی ،بدعنوانی یاناجائز کاموںکی تعریف و توصیف کی جاتی ہے یا برے انسان کی جھوٹی شان وشوکت کی قصیدہ خوانی ہوتی ہے ، اس وقت انسان کا ضمیرشیطانی روپ اختیار کرلیتاہے اوروہ معاشرے میں منفی کردارانجام دینے لگتاہے۔ آغاز میں وہ اس فعل بد اورمنفی کردارکو چیلنج کے طورپر لیتاہے۔مثلاً وہ سوچتا ہے کہ جب دوسرے لوگ ایسا کرکے معاشرے میں پسندیدہ نگاہوں سے دیکھے جارہے ہیںتو پھر وہ کیوںنہ ایسا کرے۔چنانچہ وہ اپنی محنت اورکوشش کو تیز کردیتا ہے، جب تک اسے اس فعل کے برے انجام کا احساس ہوتاہے، تب تک وہ اس دلدل میںدھنس چکاہوتا ہے،جس سے نکلنے کے لیے اسے پہلے سے زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور غربت کا خوف اسے اس دلدل میں مردہ زندگی بسرکرنے کے لیے مجبورکرتاہے۔پھروہ جھوٹ، رشوت،چوری ،قتل وخوںریزی کا بازارگرم کردیتاہے ،جس سے معاشرہ بے چینی اوربدامنی کا شکارہوجاتاہے۔
مثلاً رشوت خوری ایک بہت برا فعل ہے۔ حق دارسے حق چھین کرغیرمستحق کوحقداربنانے کے لیے یہ فعل بدانجام دیاجاتاہے۔ضمیر کے بیداررہنے یامردہ ہونے کا کوئی موسم نہیں ہوتا، بلکہ معاشرے میں جب بھی برائی ،بدعنوانی یاناجائز کاموںکی تعریف و توصیف کی جاتی ہے یا برے انسان کی جھوٹی شان وشوکت کی قصیدہ خوانی ہوتی ہے ، اس وقت انسان کا ضمیرشیطانی روپ اختیار کرلیتاہے اوروہ معاشرے میں منفی کردارانجام دینے لگتاہے۔ آغاز میں وہ اس فعل بد اورمنفی کردارکو چیلنج کے طورپر لیتاہے۔مثلاً وہ سوچتا ہے کہ جب دوسرے لوگ ایسا کرکے معاشرے میں پسندیدہ نگاہوں سے دیکھے جارہے ہیںتو پھر وہ کیوںنہ ایسا کرے۔اس فعل میں رشوت دینے والااوررشوت لینے والادونوں ملوث ہوتے ہیں،کیوںکہ ایک شخص اگروہ حقدارنہیں ہے تو کیوںدوسرے کا حق لینے کی کوشش کر رہا ہے ، پھریہ جانتے ہوئے کہ اس میں صاحب حق کی حق تلفی ہوگی، رشوت لینے والا اس غلط کام کی اورناجائز طریقے سے اس کی مددکررہاہے، اسی لیے دونوں گنہگار ہوںگے۔
اس کی ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی کی مددکرتے وقت اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر اس کے عوض مال کا مطالبہ کرے یالاچارشخص اس کو پیسہ دینے کے لیے مجبورہو،قرآن کریم میں یہ صفت یہودیوں کی قراردی گئی ہے:”یہ لوگ جھوٹ کو سننے والے اورحرام کا مال کھانے والے ہیں۔”رشوت کا طریقہ نہ صرف مشکلات پیداکرتاہے، بلکہ زندگی کوبھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ مثلاً آج مکانات تیارکیے جاتے ہیں، توان میں اس قدر پیسہ نہیں لگتا،جس قدراس کے بیچنے والے اپنا بھاؤرکھتے ہیں۔ یا دیگراشیاء جو انسانوں کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہیں،مگرجب بلڈر یا تاجرسے اس سلسلے میں معلوم کیاجاتاہے، تووہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں ان چیزوں کی تیاری میں بہت زیادہ رشوت دینی پڑتی ہے ، اس کے بغیر ہم انھیں تیارنہیں کرسکتے۔ ایسے تاجراپنی مصنوعات کی قیمت کو مناسب رکھنے کے لیے رشوت میں تو کمی نہیں کرپاتے، کیوںکہ وہ ان کے بس میں نہیں ہوتا،مگروہ میٹریل میں کمی کردیتے ہیں ،جس سے وہ مکان یا سامان، انسان کی ہلاکت کا باعث بن جاتاہے۔ آئے دن اس طرح کے واقعات اخباروںمیں پڑھنے کو ملتے ہیں، جب کہ رشوت کا یہ مال سفید پوش سرمایہ کاروںکی جیب میں جاتاہے۔اولاً توایسے واقعات کی چھان بین نہیں ہوتی،
اگر عوام کے احتجاج کے نتیجے میں کچھ کارروائی ہوئی بھی ،توصرف وہ لوگ گرفت میں آتے ہیںجو رشوت دینے والے ہوتے ہیں،مگرپس پردہ رہنے والے سفیدپوش سرمایہ داروں کا کچھ نہیں بگڑتا۔اس طرح رشوت اوربدعنوانی کا عام رواج ہوجاتاہے۔پھر اندرونی طور پراس کاربدکی مدح سرائی یا اس کومزے لے لے کربیان کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتاہے، تب یہ رویہ ان کے ارد گرد رہنے والے عام لوگوںمیں اس برائی کو پیداکرنے کا محرک بن جاتاہے ،جومعاشرے کے لیے ناسور ثابت ہوتا ہے۔غورکرنے کی بات یہ ہے کہ ایک شخص جواپنے بچے کو اس کی ذہانت کے سبب بڑاڈاکٹریا انجینئربناناچاہتاہے ،تاکہ معاشرے میں اس کی تحسین ہو اوروہ لڑکا آئندہ اس کے لیے بڑے بینک کا اے ٹی ایم ثابت ہو،جس میں ہروقت روپے بھرے ہوں۔ تو وہ اس کے لیے ڈونیشن کے طور پرلاکھوں، روپے خرچ دیتاہے۔ پھرجب یہ بچہ بڑاہوکر اپنی تعلیم مکمل کرلیتاہے تواپنے باپ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اپنے ضمیرکا سودا کرتا ہے اور رشوت کا کھیل شروع کردیتاہے۔موجودہ دورمیں ایسی ہی تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے ، جو رشوت خوری کی بنیادپرکھڑی ہو۔ایسے میں دوسرے لوگ اس میدان میں پیچھے کیوںرہیں،
اس میں عزت بھی ہے اورپیسہ بھی۔ایسا ہی کچھ معاملہ ملک کے ان حکمرانوںکا بھی ہے جو انتخاب میںکامیابی کے بعد ملنے والے بے حساب پیسوں کے لیے لاکھوں،کروڑوںروپے انتخابی مراحل میں بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔پھراس کے بعد وہ کیاکرتے ہیں ،اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔یہی حال تمام معاملات میں ہے،شایدہی کوئی جگہ ہوجواس سے خالی ہو۔معاشرہ افراد سے بنتا ہے، اس کی تعمیر وترقی یا اس کے برعکس تخریب وتنزلی کا معاملہ بھی اس میں رہنے والے افرادکے کارناموں سے ہی وجودمیں آتاہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارامعاشرہ پرامن اورخوشحال رہے، توہمیں ‘امربالمعروف اورنہی عن المنکر’ کا فریضہ انجام دینا ہوگا۔ ورنہ معاشرے کے افرادبڑی تعداد میں جرائم میں ملوث ہوںگے
اسباب تعیش کے حصول، مال واسباب کے غرور میں چور ہوکروہ دوسروںکوبھی اس مایا جال میں پھنسانے پر مجبورکریں گے۔ضمیرکو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں اسلامی احکام کو ملحوظ خاطررکھنا ہوگا۔ ہمہ وقت یہ تصورذہن میںبٹھانے کی ضرورت ہے کہ دنیا کی زندگی ایک عارضی زندگی ہے، اس کی چمک دمک محض ایک دھوکہ ہے ،اصل زندگی آخرت کی ہے۔ جب ہم اسلامی تعلیمات پرعمل پیرا ہوںگے اورمضبوطی سے اس پر ثابت قدم رہیں گے، توپھرہمارا ضمیرہمیشہ بیداررہے گا اورہم احساس کمتری کا شکارہوکرعارضی دنیاکوترجیح دینے کے بجائے آخرت کی دائمی زندگی ،اس کی راحت اوروسکون کو فوقیت دیںگے۔
تحریر : ایم اے تبسم
مرکزی صدر،کالمسٹ کونسل آف پاکستان”CCP”
email: matabassum81@gmail.com,
0300-4709102