تحریر : رشید احمد نعیم
حضرت آدم کا خلق، حضرت شیث کی معرفت، حضرت نوح کا جوش، حضرت ابراھیم کا ولولہ توحید، حضرت اسماعیل کا ایثار، حضرت اسحاق کی رضا، حضرت صالح کی فصاحت، حضرت لوط کی حکمت ،حضرت موسیٰ کا جلال،حضرت ھارون کا جمال،حضرت یعقوب کی تسلیم ورضا،حضرت دائود کی آواز،حضرت ایوب کا صبر، حضرت یونس کی اطاعت،حضرت یوشع کا جہاد،حضرت دانیال کی محبت،حضرت الیاس کا وقار ،حضرت یوسف کا حُسن ، حضرت یحییٰ کی پاک دامنی،حضرت عیسیٰ کا ز’ہد جیسے کروڑھا اوصاف کو یکجاکیا جائے توسچوں کے سردار ،صدیقوں کے بادشاہ، امینوں کے سرخیل،دیانتداروںکے سپہ سالارپیکر حسن وجمال حضرت محمدۖ کی شخصیت اور ذات ِاقدس کا چاند سا چہرہ نظر آتا ہے ،جن کی صداقت پر ان کے دشمن بھی اعتماد کرتے تھے ،جن کی امانت ودیانت کا تذکرہ ان کے حاسدوں کی زبان پر بھی تھا۔ ان کے خون کے پیاسے بھی انہیں صدیق وامین کے لقب سے یاد کرتے تھے۔جن کی زبان نبوت ملنے سے پہلے بھی جھوٹ سے نہ آشنا ء تھی۔
وہ کون سی صفت اور وہ کون سا کمال ہے جو محبوب ِخدا ،سرورِکائنات اور پیکرِاخلاق حضرت محمدۖ میں موجود نہیں تھا،حیا ء کا یہ عالم تھا کہ حضرت ابو سعیدخدری فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ۖ پردہ نشین کنواری عورت سے بھی زیادہ حیا دار تھے ،تو اضع اور صلہِ رحمی کی اس منزل پر فائز تھے کہ ڈھونڈنے سے بھی کوئی مثال نہیںملتی ہے،غلاموں اورخادموں کے ساتھ بیٹھ کر کھاناکھالیتے ،غریبوں کی عیادت فرماتے ،فقراء کے ہمنشیں ہوتے ،امتیازی شخصیت نہ اختیار فرماتے، ضیعفوں کا بوجھ خود اٹھالیتے ،خوش اخلاقی کی یہ حالت تھی کہ حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں دس سال تک حضور ۖ کی خدمت میں رہا، آپ نے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا ،حضرت عبداﷲبن حارث فرماتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو حضورۖ سے زیادہ خوش اخلاق اور خوش مزاج نہیں دیکھا۔
شجاعت کے اس رتبے پر فائز تھے کہ جنگ ِحنین میں جب مشرکوں کے سخت حملے کی تاب نہ لاکر مسلمان اِدھر ا’دھر بکھر گئے۔تو پیغمبر ِاعظم دشمنوں کوللکا رتے ہوے خود میدانِ کا رزار میں مو جود رہے، عفودرگزرکی انتہا یہ تھی کہ فتحِ مکہ کے موقع پر اپنے خون کے پیاسوں، صحابہ پر مکہ کی زمین تنگ کرنے والے د رندوں، بلال وخبیب پر ظلم ڈھانے والے ظا لموں ، سمیعہ اور یاسرکو شہید کرنے والے وحشیوں کو یہ کہہ کر معاف کردیا کہ” آج تم پر کوئی الزام نہیں اﷲتم کو معاف کرے اور بے شک وہ رحم کرنے والوں میں سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے”۔حضرت حمزہ کی قاتل اور کلیجہ چبا نے والی ہندہ کومعاف کرکے عفودرگزر کی وہ اعلیٰ مثال قائم کی جو آج تک ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے، صبروشکر میں آپکا کوئی ثانی نہیں ہے ،حضرت سیدہ عائشہ کے بقول بعض دفعہ ایک ایک ہفتہ تک گھر میں چولہا نہیں جلتا تھا ،صرف کھجوروں اور پانی پر گزارہ ہوتا تھا مگر نبی اکرمۖ پھر بھی انتہائی صبر کے ساتھ خدا کا شکر ادا کرتے ،محبت وشفقت کا یہ عالم تھا کہ انسانوںکے علاوہ حیوانوں پر بھی آپ بہت شفیق تھے۔
آپکی شفقت ومحبت کا نتیجہ تھا کہ جب حیوانوں پر ظلم ہوتا تو وہ بھی آپ کے پاس شکایت لے کر آتے سچائی کی حالت یہ تھی کہ دشمن بھی آپ کے سچے ہونے کا اقرار کرتے تھے،جنگِ بدر میںاحنس بن شریق نے ابوجہل سے پوچھا” یہاں ہم دونوں کے علاوہ تیسرا کوئی نہیں ہے، سچ بتانا کہ محمدۖ سچاہے یا جھوٹا؟” (نغوذبااﷲ) ابوجہل نے جواب دیا ”.خداکی قسم ! محمدۖسچ بولتا ہے، اور اس نے کبھی غلط بیانی نہیں کی ”.حضورۖ حسنات وکمالات کا اعلیٰ ترین مرقع تھے ۔آپ حُسن وجمال میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲۖ سے زیادہ خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا.حضرت جابربن سمرہ کہتے ہیںکہ حضورۖ کا چہرہ آفتاب ومہتاب جیسا تھا۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
چاند سے تشبہہ دینا بھی کوئی انصاف ہے چاند کے چہرے پر چھائیاں مدنی کا چہرہ صاف ہے
حضرت حسان کہتے ہیں ،میری آنکھ نے آپ سے زیادہ حسین کبھی دیکھا ہی نہیں آپ سے زیادہ جمیل کسی ماں نے جنا ہی نہیں .کسی شاعر، کسی مفکر نے حضرت جبرائیل کے جذبات کی ترجمانی کچھ اس طرح کی ہے ” میں کائنات کا کونہ کونہ پھرا ہوں،میں نے مشرق ومغرب کی سیاحت کی ہے، میں نے حسن وجمال کے اعلیٰ شاہکار دیکھے ہیں ،میں نے ایسے بھی دیکھے ہیں جن کے حسُن کی بتوں کی طرح پرستش ہوتی ہے لیکن آمنہ کے لال کے رخ ِانور کو دیکھا تو میں اس نتیجے پرپہنچا کہ آپ انوکھے اور بے مثال حسُن کے مالک ہیں ” ۔محسنِ انسانیت وہ رسول ِ ھاشمی ہیں ،جنہوں نے ہمیں خد ا سے ملوایا. جنہوں نے انسانوں کو خدا کا جلوہ دکھایا ۔جنہوں نے فلک کی بلندی،زمین کی پستی،رات کی تاریکی ،دن کی روشنی، سورج کی چمک،جگنو کی دمک،ذرہ کی پرواز اور قطرہ کی طراوت میں عرفانِ ربانی کی سیر کرائی جن کی تعلیم نے درندوں کو چو پانی ،بھیڑیوں کوگلہ بانی ،راہزنوں کو جہا ں بانی،غلاموں کو سلطانی اور شاہوں کو ا خو انی سکھائی۔
جنہوں نے خشک میدانوں میں علم و معرفت کے دریا بہائے ،جنہوں نے اونٹوں کے چرواہوں کو زمانے کا امام بنایا،جو غریب کے محب ،مسکین کے ساتھی ،غلاموں کے محسن یتیموں کے سہارا ،بے آسروں کا آسرا ،بے خانمائوں کے ماوی،دردمندوں کی دوا اور چارہ گروں کے دردمند تھے ،آپ کواپنی امت سے بہت محبت تھی،ہر وقت ،ہرلمحہ، ہر گھڑی اور ہر آن اپنی امت کی فکر رہی پیغمبر ِاعظم کو جس حالت میں دیکھیں امت کی فکر تھی، رات کی خلوتوں میں امت کی فکر،دن کی جلوتوں میں امت کی فکر،مکہ اور مدینہ میں امت کی فکر،بدروحنین میں امت کی فکر،صحت وتندرستی میں امت کی فکر،بڑ ھاپے اور بیماری کی حالت میں امت کی فکر،فرش پرامت کی فکر،معراج پر امت کی فکر،دنیا میں امت کی فکر،دنیا سے جانے کے بعد بھی امت کی فکر،قیامت کے ہولناک منظر میں جب انبیاء اکرام نفسی نفسی کہہ ر ہے ہوں گے توآقائے دو جہاں ،سردار کون ومکاں شفیع عاسیاں امتی امتی کہہ رہے ہوں گے. جذبہ ایمانی کاتقاضہ ہے کہ ہم بھی اپنے پیارے رسول ۖسے اپنی جان ومال ،اولاد اور ہر چیز سے بڑھ کر محبت کریں اپنی زندگی کو اطاعتِ رسول میں گزاریں اور یہی کامیابی کا راستہ ہے۔
تحریر : رشید احمد نعیم