برطانیہ مغربی یورپ میں سب سے زیادہ وزن رکھنے والے لوگوں کا ملک ہے۔ یہ انکشاف آرگنائزیشن فار اکنامک کوپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ نے کیا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ برطانیہ میں موٹاپے کی شرح دوسرے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے زائد ہے۔
آرگنائزیشن فار اکنامک کوپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ کے مطابق پچھلے دو عشروں کے دوران برطانیہ میں موٹاپے کی شرح دگنی ہوئی ہے، یہاں 63 فیصد بالغ افراد کا وزن زیادہ ہے۔ برطانیہ میں کم عمر افراد کی شراب نوشی کی شرح بھی دوسرے ملک سے زائد اور قابل تشویش ہے۔ او ای سی ڈی ہیلتھ ایٹ اے گلانس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر برطانوی باشندوں کی مجموعی صحت اور متوقع زندگی کی شرح اوسط درجے کی ہے جس کا سبب اسموکنگ میں کمی اور بالغ افراد کی شراب نوشی میں کمی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موٹاپے کا مطلب یہ ہے کہ ذیابیطس اور امراض قلب جیسی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہے۔ او ای سی ڈی نے ہاسپٹل کے آئوٹ لسٹس سے سپر سائز چاکلیٹ بارز پر پابندی اور شگر ٹیکس جیسے حکومت کے زیر التوا اقدامات کو تسلیم کیا ہے۔ تاہم کہا ہے کہ مزید اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔
آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے او ای سی ڈی قوموں میں حالیہ برسوں میں موٹاپے کی سطح کم کرنے میں کامیابی ہوئی ہے۔ تاہم 4 فیصد شرح کے ساتھ جاپان سب سے آگے ہے۔ بہرحال برطانیہ بچوں میں موٹاپے کے خاتمے کے لیے بہتر کوششیں کررہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق یہ 24 فیصد کی شرح کے ساتھ مستحکم ہے۔ اگرچہ کوکنگ کی شرح کم ہے۔ کم عمر افراد میں شراب نوشی کی خطرناک شرح ایک مسئلہ ہے۔ او ای سی ڈی نے پتہ لگایا ہے کہ 15 سالہ عمر کے ساڑھے 30 فیصد افراد نے اپنی زندگی میں کم از کم دوبار شراب پینے کا اعتراف کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مریضوں کے لیے علاج تک اچھی رسائی مستحکم اور کچھ قسم کے سرطانوں کے علاج کے لیے نتائج بہتر ہیں اور پہلی مرتبہ بریسٹ اور ریکٹل کینسر میں بچ جانے والوں کی شرح اوسط سے بڑھ رہی ہے۔ بہرحال کولون کینسر میں بچ جانے والوں کی شرح اب بھی اوسط سے کم ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مریضوں کو ڈسچارج کرنے میں تاخیر کی صورتحال بگڑ رہی ہے۔ 2013ء سے انگلینڈ میں ایسے مریضوں کے ہسپتال میں ڈسچارج کیے جانے کے بعد رکنے میں اضافہ ہوا ہے۔