لندن(ویب ڈیسک) ایران سے حالیہ کشیدگی کے بعد خطرے کے پیش نظر خلیج میں جہاز رانی کے تحفظ کے لیے برطانیہ ڈرون طیاروں کے استعمال پر غور کررہا ہے۔تفصیلات کے مطابق برطانوی حکومت ایران کے ساتھ بحران کے تناظر میں ڈرون طیارے خلیج میں بھیجنے کے امکان پر غور کر رہی ہے۔برطانوی ٹی وی کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی رائل ایئرفورس کے کئی عدد ڈرون طیارے عراق اور شام کی فضاؤں میں کارروائیوں کے سلسلے میں کویت میں موجود ہیں۔اگر خلیج میں ڈرون طیاروں کے تعینات کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا تو ان طیاروں کو دوسرا مشن سونپا جا سکتا ہے، برطانیہ کو حالیہ کشیدگی پر شدید تشویش ہے۔یہ ڈرون طیارے آبنائے ہرمز میں برطانوی پرچم بردار آئل ٹینکروں کے ہمراہ جنگی بحری جہازوں کی موجودگی کے ساتھ نگرانی کی کارروائیوں میں مدد کریں گے یاد رہے کہ ایران نے رواں سال جولائی میں ’اسٹینا امپیرو‘ نامی ایک برطانوی آئل ٹینکر اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس بحری جہاز کے عملے کے ارکان کی تعداد تیئیس کے قریب تھی۔ایران نے آبنائے ہرمز سے جس برطانوی آئل ٹینکر کو اپنی تحویل میں لیا، اس میں سوار عملے کے 23 افراد میں سے اٹھارہ کا تعلق بھارت سے تھا۔اس کارروائی کے بعد لندن حکام نے ایران کو خبردار کیا کہ اسے اس کا سنگین نقصان چکانا پڑے گا، جبکہ عالمی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔برطانوی چینل اسکائی نیوز کے مطابق برطانیہ کی رائل ایئرفورس کے کئی عدد ڈرون طیارے عراق اور شام کی فضاؤں میں کارروائیوں کے سلسلے میں کویت میں موجود ہیں۔ چینل کا کہنا ہے کہ اگر خلیج میں ڈرون طیاروں کے تعینات کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا تو ان طیاروں کو دوسرا مشن سونپا جا سکتا ہے۔اسکائی نیوز نے مزید بتایا کہ یہ ڈرون طیارے آبنائے ہرمز میں برطانوی پرچم بردار آئل ٹینکروں کے ہمراہ جنگی بحری جہازوں کی موجودگی کے ساتھ نگرانی کی کارروائیوں میں مدد کریں گے۔برطانیہ نے جمعے کے روز مطالبہ کیا تھا کہ خلیج میں شپمنٹ کو درپیش خطرات پر روک لگانے کے واسطے وسیع پیمانے پر سپورٹ کی ضرورت ہے۔ جولائی میں ایران نے آبنائے ہرمز میں ایک برطانوی پرچم بردار آئل ٹینکر کو قبضے میں لے لیا تھا۔یاد رہے کہ برطانیہ نے ایران کے ساتھ کشیدگی کے بیچ جولائی میں اپنے دو فوجی بحری جہاز خلیج بھیجے۔ یہ اقدام ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز میں جہازوں کی آمد ورفت میں رکاوٹ ڈالنے اور تیل بردار جہازوں کو تحویل میں لینے کے بعد سامنے آیا۔اس سے قبل چار جولائی کو برطانیہ کے زیر انتظام جبل طارق کے حکام نے ایک ایرانی تیل بردار جہاز ایڈریان ڈاریا 1 (سابقہ نام گریس 1) کو قبضے میں لے لیا تھا۔ بعد ازاں ایک ماہ سے زیادہ عرصے بعد جبل طارق کی حکومت نے اس جہاز کو چھوڑ دیا۔اس تیل بردار جہاز کو تحویل میں لیے جانے کے واقعے نے برطانیہ اور ایران کے درمیان شدید کشیدگی پیدا کر دی۔ ایرانی پاسداران انقلاب نے دھمکی دی کہ امریکا اور برطانیہ کو اس جہاز کو تحویل میں لینے پر “شدید ندامت” اٹھانا پڑے گی۔ ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف محمد باقری نے برطانیہ کو خبردار کیا تھا کہ “یہ معاملہ بنا جواب کے ایسے ہی نہیں گزر جائے گا”۔یاد رہے کہ ایرانی تیل بردار جہاز ایڈریان ڈاریا 1 ابھی تک سمندر کے بیچ موجود ہے۔ جہازوں کی آمد و رفت پر نظر رکھنے والی ایک ویب سائٹ نے اتواور کے روز بتایا کہ یہ جہاز شام کے ساحلوں کے نزدیک رک گیا ہے۔خلیج میں جہاز رانی نے ابھی تک کئی ملکوں کو مصروف کر رکھا ہے۔ ان میں امریکا سرفہرست ہے۔ بالخصوص حالیہ چند ماہ میں ان حملوں کے بعد جن میں تیل بردار جہازوں کو نشانہ بنایا گیا۔پینٹاگان میں گذشتہ ہفتے منعقد ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے خلیج، بحر عرب اور باب المندب میں جہاز رانی کے تحفظ کے لیے SENTINEL آپریشن کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے باور کرایا کہ یہ آپریشن اچھی طرح جاری رہے گا۔ایسپر کے مطابق “یہ آپریشن دُہرے فوائد کا حامل ہو گا۔ ایک طرف تو یہ تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کو یقینی بنائے گا جو کہ عالمی معیشت کے لیے ایک ضروری امر ہے۔ دوسری جانب اس کے ذریعے خطے میں کسی بھی اشتعال انگیزی یا تنازع کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے گا”۔ایسپر کا مزید کہنا تھا کہ “مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہے کہ SENTINEL آپریشن میں برطانیہ، آسٹریلیا اور بحرین شریک ہیں”۔